کورونا وائرس کی وبا کی ابتدا سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ محض پھیپھڑوں تک محدود بیماری نہیں، بلکہ دل، گردوں اور جگر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

کچھ متاثر افراد کو دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند، سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور فالج کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

اب پہلی بار علم ہوا ہے کہ کووڈ 19 سے طویل المعیاد بیادوں پر دماغی ٹشوز کی محرومی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

یہ تشویشناک دریافت برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یوکے بائیوبینک کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا جس کے پاس 40 ہزار سے زیادہ افراد کے جینیاتی ڈیٹا، طبی ریکارڈز اور دماغی اسکینز موجود تھے۔

ان میں سے 782 افراد کا انتخاب کیا گیا جن میں سے 3394 میں مارچ 2020 سے اپریل 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، جبکہ باقی افراد (388) اس سے محفوظ رہے تھے جن کو کنٹرول گروپ کی حیثیت دی گئی۔

کووڈ سے متاثر افراد اور کنٹرول گروپ میں عمر، صنف، نسل، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن جیسے عناصر کو مدنظر رکھا گیا تھا۔

کووڈ سے متاثر بیشتر افراد میں بیماری کی علامات معتدل تھیں یا کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

محققین نے دونوں گروپس کے دوبارہ دماغی اسکین کیے اور ان کا موازنہ وبا سے قبل کے اسکینز سے کیا گیا۔

تحقیق میں 2360 دماغی حصوں کو مدنظر رکھا گیا اور جانچ پڑتال کی گئی کہ دونوں اسکینز میں کیا فرق آیا ہے، اور بیماری سے متاثر افراد میں کیا تبدیلیاں آئیں۔

نتائج سے عندیہ ملا کہ کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد کے ان دماغی حصوں کے ٹشوز میں کمی آئی ہے جو سونگھنے کی حس سے منسلک ہیں۔

اس جامع تجزیے میں ہر طرح کے نکتوں کو مدنظر رکھا گیا تاہم محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کی مکمل تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ دماغ کے مخصوں کے حجم میں معمولی کمی تشویشناک لگتی ہیں، تاہم یہ تبدیلیاں ضروری نہیں کہ بیماری کا نتیجہ ہوں۔

محققین کے خیال میں ان کی دریافت براہ راست کووڈ 19 کا اثر ہے کیونکہ وائرس دماغ میں ناک کے راستے داخل ہوتا ہے۔

تاہم ایک ممکنہ وضاحت یہ بھی ہے کہ مخصوص دماغی حصوں میں تبدیلیاں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔

کورونا سے قبل بھی سونگھنے کی حس سے محرومی کے نتیجے میں دماغی ساکت میں تبدیلیوں کو دیکھا گیا ہے اور مختلف جراثیم بھیھ دماغی گرے میٹر میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔

تاہم اس تحقیق کے نتائج سے ان خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کہ لانگ کووڈ یا بیماری کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں میں کووڈ سے دماغی تبدیلیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔

نتائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ کی معموی شدت یا علامات سے محفوظ رہنے واے افراد میں بھی طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے۔

اس سے قبل یہ بات سامنے آچکی ہے کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں مختلف علامات جیسے تھکاوٹ اور ڈپپریشن کا خطرہ ہوتا ہے ۔

اس نئی تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں