ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی میں توسیع کی محکمہ داخلہ کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2021
تحریک لبیک کے سربراہ عدالت میں پیشی کے موقع پر اپنے حامیوں کو ہاتھ لہرا کر جواب دے رہے ہیں— فوٹو: ٹوئٹر
تحریک لبیک کے سربراہ عدالت میں پیشی کے موقع پر اپنے حامیوں کو ہاتھ لہرا کر جواب دے رہے ہیں— فوٹو: ٹوئٹر

لاہور ہائی کورٹ کے ایک جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی جس سے ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

اس فیصلے کا اعلان لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل صوبائی جائزہ بورڈ نے ایک بند کمرہ کی سماعت کے دوران کیا جہاں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی میں توسیع کے مطالبہ کی درخواست پر سماعت کی گئی۔

مزید پڑھیں: تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کو لاہور میں گرفتار کر لیا گیا

سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ ان کے بقول حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

اس سے قبل فرانس میں حضور نبی اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک پاکستان حکومت پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی کیونکہ فرانسیسی صدر کی طرف سے ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت کی گئی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں ٹی ایل پی اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا تاکہ اس معاملے کو تین ماہ میں طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لی جا سکے۔

16 فروری کی ڈیڈ لائن قریب آتے دیکھ کر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید وقت طلب کیا تھا، اس کے بعد ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج ڈھائی ماہ 20 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار، نوٹیفکیشن جاری

ڈیڈ لائن کے اختتام سے ایک ہفتہ قبل سعد نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کے کارکنوں سے کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور اس پیغام کے بعد حکومت نے 12اپریل کو ٹی ایل پی سربراہ کو گرفتار کر لیا تھا۔

لاہور کے وحدت روڈ پر دوپہر 2 بجے کے قریب پولیس نے سعد رضوی کو ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی کے دوران گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

اگلے ہی دن پولیس نے ٹی ایل پی سربراہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی اور مقدمے کے اندراج کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرین لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد مقامات پر گرینڈ ٹرنک روڈ بلاک کردیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور دھرنے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی اور حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر سعد کو حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کی متضاد خبریں

جمعے کے روز جب سعد رضوی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس کی ایک بھاری نفری لاہور ہائی کورٹ کے داخلی اور خارجی گیٹ پر موجود تھی، عدالت کے احاطے میں داخلے پر پابندی عائد تھی، ٹی ایل پی کے مظاہرین نے پولیس وین سے اترتے ہی اپنے سربراہ کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔

سعد کے وکیل ایڈووکیٹ برہان معظم ملک نے سماعت کے بعد ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی نظربندی کے پانچ سے سات دن باقی ہیں، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا ضمانت کے لیے درخواست دی جائے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ 90روزہ تحویل کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد پولیس سعد کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کرتی ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں