'آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس': نیب 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے، فواد چوہدری

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2021
فواد چوہدری نے کہا کہ اصل مقدمہ 5000 ارب روپے کے لگ بھگ ہے — فائل فوٹو / ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ اصل مقدمہ 5000 ارب روپے کے لگ بھگ ہے — فائل فوٹو / ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) اب تک 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ 'جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب اب تک 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے اور یہ تقریباً 20 کروڑ ڈالر بنتے ہیں، اصل مقدمہ 5000 ارب روپے کے لگ بھگ ہے'۔

انہوں نے حکومت سندھ پر درپردہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'اس وصولی سے آپ اندازہ لگا لیں کے اس ملک میں کرپشن کی کیا سطح رہی ہے اور حکمرانوں نے سندھ اور پاکستان کو کیسے لوٹا ہے'۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وفاقی وزیر نے مبینہ کرپشن کے باعث حکومت سندھ پر تنقید کی ہے۔

اپنے حالیہ دورہ کراچی میں فواد چوہدری نے سندھ کے حکمرانوں اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر بیرون ملک منی لانڈرنگ کے لیے عوامی فنڈز کے غلط استعمال کا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے 'تھرڈ پارٹی' کے ذریعے وفاقی حکومت کی جانب سے حکومت سندھ کو دیے جانے والے فنڈز کی نگرانی کی بھی وکالت کی تھی۔

فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ 'حکومت سندھ کو ملنے والا پیسہ دبئی، کینیڈا اور یورپ سے برآمد ہو رہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ نافذ ہے، فواد چوہدری

جعلی اکاؤنٹس کیس

خیال رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اسکینڈل میں لگ بھگ 172 افراد کو تحقیقات کا سامنا ہے جن میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فرالن تالپور، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ، صوبائی وزیر انور سیال، پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت دیگر شامل ہیں۔

آصف زرداری، فریال تالپور اور متعدد دیگر کاروباری افراد کے خلاف سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل میں 29 'بے نامی' اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشنز سے متعلق 2015 کے کیس کے طور پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اگست 2018 میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس میں عدالت نے آصف زرداری کو طلب کرلیا

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں