سینیٹ اجلاس میں نیپرا بل اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود منظور

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2021
سینیٹ اجلاس کے دوران نیپرا بل پیش کیا گیا جس کے ایجنڈا میں شامل نہ ہونے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
سینیٹ اجلاس کے دوران نیپرا بل پیش کیا گیا جس کے ایجنڈا میں شامل نہ ہونے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی ریگولیشن میں ترمیم کا بل منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ اجلاس کے دوران نیپرا بل پیش کیا گیا جس کو ایجنڈا میں شامل نہ کیے جانے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔

بل میں کہا گیا کہ صارفین کے مفاد میں نیپرا بجلی کی ترسیل سے وابسطہ پبلک سیکٹر لائسنس یافتہ کمپنی کے لیے یکساں ٹیرف مقرر کرے گی۔

یہ بھی بتایا گیا کہ منظور شدہ ٹیرف یا یکساں ٹیرف کے حوالے سے نوٹی فکشن 30 روز کے اندر جاری کیا جائے گا اور اگر وفاقی حکومت نیپرا کے مقرر کردہ ٹیرف کا نوٹی فکشن مقررہ وقت میں جاری نہیں کرتی یا نظر ثانی کا نہیں کہتی تو نیپرا اپنی سفارش کے فوری اطلاق کی تجویز دے سکتا ہے جس پر وفاقی حکومت 30 روز کے اندر نیپرا کو ٹیرف پر نظر ثانی کا کہہ سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’سینیٹ کا کھیل‘

علاوہ ازیں یہ بھی کہا گیا کہ نیپرا سہ ماہی بنیاد پر منظور شدہ ٹیرف میں ایڈجسمنٹ کر سکتی ہے جس پر وفاقی حکومت 15 روز کے اندر نظرثانی کی ہدایت دے سکتی ہے۔

یہ ایڈجسمنٹ ٹرانسمیشن چارجز، تقسیم کے نقصانات، مرمت کی مد میں کی جا سکتی ہے، نیپرا ماہانہ بنیاد پر فیول چارجز کی مد میں منظور شدہ ٹیرف میں ایڈجسمنٹ کر سکتی ہے۔

اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک بھر میں بجلی کے یکساں ٹیرف کا نفاذ ہو گا، ملک بھر میں مختلف ٹیرف وصول نہیں کیے جائیں گے۔

بل پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بل کے مطابق اتھارٹی خود سے نوٹی فکشن جاری کر دے گی، یہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نوٹی فکشن کا حق صرف وفاقی حکومت کے پاس رہنا چاہیے۔

مجرمانہ معاملات پر باہمی قانونی تعاون کا ترمیمی بل منظور

علاوہ ازیں اجلاس کے دوران مجرمانہ معاملات پر باہمی قانونی تعاون کا ترمیمی بل اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ میں پیش کیے گئے اس ترمیمی بل پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم بھی چاہتے ہیں ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال جائے لیکن غلامانہ قانون سازی نہیں ہونی چاہیے'۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات کا جھٹکا، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا ہوتا رہا؟

ان کا کہنا تھا کہ 'آئین اور بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں ہونی چاہیے، حکومتی ترمیم کے تحت آپ نوٹس دیے بغیر کسی کو اٹھا لیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ریاست کو اغوا کار، ڈاکو بنایا جارہا ہے اور اس کے ذریعے شکیل آفریدی، کلبھوشن یادیو کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں ترمیم پیش کرتا ہوں کہ کسی پاکستانی کو بغیر نوٹس گرفتار نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی کے حوالے کیا جائے'۔

تاہم ان کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔

بعد ازاں سینیٹر مشتاق احمد بل کی منظوری کے بعد ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔

مجرمانہ معاملات پر باہمی قانونی تعاون کے ترمیمی بل میں کہا گیا کہ 'جرم سے مراد وہ جرم ہے جو تعزیرات پاکستان یا کسی اور قانون کے تحت قابل سزا ہو یا اُس ملک کے قانون کے تحت قابل سزا ہو جس سے باہمی قانونی تعاون کیا جا رہا ہے'۔

اس کے ساتھ ہی کہا گیا کہ 'باہمی قانونی تعاون کی تمام درخواستوں پر مرکزی اتھارٹی تیزی سے عملدرآمد اور فیصلہ کرے گی اور قانون سے وہ دفعات حذف کر دیئے جائیں گے جس کے مطابق وفاق صوبے یا مقامی اتھارٹی سے وسائل پر اضافی بوجھ کے باعث قانونی معاونت سے انکار کر سکتے ہیں'۔

جعلی شناختی کارڈز کے اجرا پر توجہ دلاؤ نوٹس

اجلاس کے دوران کالعدم تنظیموں اور غیر ملکیوں کو نادرا کی جانب سے جعلی شناختی کارڈز کے اجرا پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر فیصل سبزواری نے توجہ دلاؤ نوٹس دیتے ہوئے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں 50 فیصد نادرا اہلکاروں اور افسران نے جعلی شناختی کارڈز بنائے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'این ڈی ایس، دشمنی ایجنسی، کالعدم تنظیموں کے جعلی شناختی کارڈز بنائے گئے ہیں اور 30 سے 40 لاکھ غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز بنائے گئے ہیں'۔

مزید پڑھیں: 'عسکریت پسندوں' کو شناختی کارڈ جاری کرنے پر 2 نادرا عہدیدار گرفتار

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نادرا کے ان افراد کو بے نقاب کیا جائے اور برطرف کیا جائے جن لوگوں نے یہ کارڈ بنائے ہیں اور جعلی شناختی کارڈز بلاک کیے جائیں۔

اس پر حکومتی بینچز سے علی محمد خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی کا بیان ان کی زبان پھسلنا بھی ہو سکتا ہے، معلوم نہیں ایک ذمہ دار شخص ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ میں 40 لاکھ جعلی شناختی کارڈز کی بات کی گئی، ہمارے ریکارڈ کے مطابق 2018 سے اب تک کراچی میں 5 لاکھ اور سندھ میں 23 لاکھ سے زائد شناختی کارڈز جاری کیے گئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیسے ممکن ہے کہ 40 لاکھ جعلی شناختی کارڈ جاری ہوں جب کہ مجموعی 29 لاکھ شناختی کارڈز جاری کئے گئے ہیں تاہم پھر بھی غلط کام ہوئے ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نادرا سندھ کے 39 ملازمین کو معطل کیا گیا، علاقائی ڈی جی کو او ایس ڈی بنایا گیا اور 10 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

بعد ازاں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا آفریدی نے معاملے کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

اراکین پارلیمان کی تنخواہ اور الاؤنسز ترمیمی ایکٹ منظور

سینیٹ اجلاس کے دوران اراکین پارلیمان کی تنخواہ اور الاؤنسز کے حوالے سے ترمیمی ایکٹ منظور بھی کر لیا گیا۔

اس ایکٹ میں کہا گیا کہ اجلاس میں شرکت کے لیے سفر کرنے والے سینیٹر سفری الاؤنس کے مستحق ہیں جنہیں ریل کے سفر کی صورت میں ائیر کشنڈ کلاس کے کرا ئے کے برابر رقم ملے گی اور جہاز سے سفر پر بزنس کلاس کا سفری الاؤنس دیا جائے گا چاہے وہ جس روٹ پر سفر کر رہے ہوں اس پر بزنس کلاس کی سہولت میسر ہو یا نہیں۔

اس کے علاوہ اراکین سینیٹ کے سڑک پر سفر کی صورت میں 25 روپے فی کلومیٹر الاونس دیا جائے گا، ہر رکن بزنس کلاس کے 25 رٹرن ٹکٹ یا اس کے برابر مالیت کے سفری واؤچرز کا مستحق ہوگا اور جس روٹ پر پی آئی اے کی پروازیں نہ ہوں تو رکن پندرہ لاکھ روپے کے واؤچرز یا برابر مالیت کی نقد کا مستحق ہو گا۔

اس حوالے سے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اس بل میں تنخواہوں میں اضافہ کی تجویز نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں تنخواہوں میں اضافہ مناسب نہیں، اس بل کا مقصد محض طریقہ کار کو آسان کو بہتر بنانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں