زبیدہ مصطفی۔
زبیدہ مصطفی۔

پورے ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں جاری امتحانات کے ساتھ نقل کا موسم بھی لوٹ آیا ہے۔ حسبِ توقع قومی مبحاثے کا محور امتحان لینے اور دینے والوں کی بے ضابطگیاں بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ امتحانی بورڈز کی نااہلی اور بدعنوانی بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جو نہ صرف ہمارے نظامِ تعلیم کے اس بدنما پہلو پر چُپ سادھے رہتے ہیں بلکہ اس عمل میں سہولت کار بھی بن جاتے ہیں۔

اگر یہ طرزِعمل ہمارے تعلیمی باسز کو تسکین دیتا ہے تو انہیں پتا ہونا چاہیے کہ وہ اس ملک میں اکیلے ایسے لوگ نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امتحانات میں نقل ہماری بدعنوانی کی ثقافت کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ سب سے زیادہ نااہل اشخاص سب سے زیادہ بدعنوان بھی ہیں۔

محکمہ پولیس کو ہی لیجیے جس کا خیال میرے ذہن میں ہر سال جولائی میں اس وقت آتا ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ انسانی اسمگلنگ (ٹی آئی پی) سے متعلق رپورٹ جاری کرتا ہے۔ میری خاص دلچسپی کا مرکز پاکستان کے حوالے سے بتائے گئے اعداد وشمار ہوتے ہیں کیونکہ میں 2 ایسی کم سن بچیوں کے کیس پر کام کر رہی ہوں جن کو سوتیلا بھائی اٹھا لے گیا تھا اور پولیس کے مطابق اس ملزم نے بچیوں کو عصمت فروشی کا اڈا چلانے والے کو ایک لاکھ 20 ہزار کے عوض 'کرائے پر' دے رکھا تھا۔ مجھے یہ جان کر صدمہ پہنچا کہ ہماری پولیس ان بچیوں کو بازیاب نہیں کرواسکی ہے۔

پڑھیے: زبان کی پابندی سے احتیاط کیجیے، بچہ جس زبان میں چاہے پڑھنے دیجیے

2021ء کی رپورٹ میں اس بات کو دُہرایا گیا ہے کہ پاکستان انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مطلوب کم سے کم معیارات پر پورا نہیں اُترتا۔ رپورٹ میں ریاستی افسران کی جرائم میں ملوث ہونے کو ناکامی کی سب سے اہم وجہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اغوا ہونے والے افراد کی تعداد 2019ء میں 19 ہزار 954 تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 32 ہزار 22 تک جا پہنچی ہے، ان میں خواتین کی تعداد 15 ہزار 255 اور بچوں کی تعداد 6 ہزار 937 ہے۔

رپورٹ یہ انکشاف بھی کرتی ہے کہ تفتیش اور سزایابی کی شرح میں کمی کے باعث مجرمان سزا پانے سے بچ جاتے ہیں اور یوں انسانی اسمگلنگ کو شہہ ملتی ہے جو عصمت فروشی اور جبری مشقت کے دسیوں لاکھ روپے کے کاروبار کو بحال رکھتی ہے۔ مثالوں کا تو انبار ہے لیکن ضرورت ایک غیرجانبدار اور آزادانہ تجزیے کی ہے۔

ہر بدعنوانی کا حتمی مقصد کم سے کم وقت میں ناجائز طریقوں سے اضافی پیسوں کا حصول ہوتا ہے۔ حالانکہ پیسوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ مگر ایسا مانا جاتا ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے کمائے گئے ان پیسوں سے خود کو نہایت غیر محفوظ محسوس کرنے والے شخص کو تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ نہ تو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی اعتماد۔

یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ پھر کیوں کچھ معاشرے دیگر کے مقابلے میں زیادہ بدعنوان ہوتے ہیں؟ تو اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ کچھ ریاستوں میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے مضبوط نظام قائم ہوتا ہے اور بدعنوان شخص آسانی سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔

پڑھیے: کوئی ہے جو ہمارے دیہی علاقوں پر بھی توجہ دے؟

ان معاشروں میں غلط کاموں کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ معاشرے اپنے شہریوں میں کن اقدار کو فروغ دیتے ہیں، اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔ کسی وقت میں ہمارے ہاں نفسیاتی رکاوٹیں ہوا کرتی تھیں جو اب باقی نہیں رہیں۔

چنانچہ لوگ اب اپنے اور اہل خانہ کے تحفظ اور عزت (ساکھ) کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ اب شفافیت کا دوردورہ نہیں رہا جس کی وجہ سے بدعنوانی معاشرے کا ایک قابل قبول اور عام عنصر بنتی چلی گئی۔ آج لالچ و حرص سماج میں اس قدر گہرائی سے پیوستہ ہے کہ انفرادی اور قومی فیصلہ سازی میں دیگر تمام اہم اخلاقی پہلوؤں کے ساتھ مذہبی اقدار تک کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے 2 وجوہات کارفرما رہی ہیں۔ پہلی وجہ نیو لبرل ازم کی اقتصادیات ہے جو سرد جنگ کے بعد ابھر کر سامنے آئی اور اب پوری طرح غالب آچکی ہے۔

یہ رجحان لوگوں کو دولت جمع کرنے پر اکساتا ہے جس سے ناگزیر طور پر امیری اور غربت کے درمیان دراڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں، مساواتی نظریے کی مزاحمت کے باوجود سماجی انصاف کو دفع کردیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ میڈیا کا کردار ہے۔ ڈیجیٹل، سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کے ذرائع اس رجحان کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ ذرائع دولت، نمود ونمائش اور لگژری کو اس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کی نفسیات میں پیسے کی پوجا رچ بس جاتی ہے۔ پھر مواصلات کی عالمگیریت کے باعث اس عمل میں مزید شدت آجاتی ہے۔

اگرچہ منظرنامہ بہت تاریک ہے لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ حکومت اور طاقت کے مراکز پر قابض دیگر لوگ بھلے ہی بدعنوانی پر قابو پانے میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ البتہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے اثرات سب سے زیادہ شفافیت کے حامی رائے سازی کے شعبے میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

پڑھیے: کرپشن کرنے اور چُھپانے کے راہنما اصول

یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف عام افراد کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ مگر صرف اس وجہ سے یہ عام لیکن بہادر افراد ٹی وی کے ہاتھوں نوجوانوں کی نفسیات کے بگاڑ کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عام افراد میڈیا کے بُرے اثرات کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

اب تو ایسے مقامات پر بھی اسٹڈی گروپس اور اصلاحی سرکلز پائے جاتے ہیں جہاں توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ گزشتہ ہفتے ہی میں لیاری میں راجی بلوچ ویمن ایسوسی ایشن کے ممبران سے زبان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کر رہی تھی۔ یہ خواتین باقاعدگی سے ایک جگہ جمع ہوتی ہیں، بھلا ان خواتین کو اس موضوع پر بحث کرنے سے کون سی چیز روکے گی کہ میڈیا کیا بتا رہا ہے اور کس طرح نوجوانوں کو بگاڑ رہا ہے؟

ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس نئے تصورات کی کمی نہیں اور خاصے متحرک بھی ہیں۔ یہ لوگ شاندار ذہنی اور شعوری قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں، میں ایسے متعدد لوگوں سے مل چکی ہوں اور ان کی مباحثوں میں حصہ بھی لے چکی ہوں۔ بدعنوانی کی دیوار گرانا وقت کی اہم ضرورت ہے لہٰذا ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی جو بدعنوانی کی دیوار کو دھکا دینے کی زبردست قوت رکھتے ہیں۔

یہ مضمون 16 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Khalid H. Khan Jul 20, 2021 11:10am
بہترین تحریر