زبیدہ مصطفی۔
زبیدہ مصطفی۔

تدریسی زبان ہمیشہ سے ایک حل طلب مسئلہ رہا ہے اور حالیہ دنوں میں یہ ایک بار پھر گرما گرم بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ مگر اب چونکہ مادری زبان کی حامی لابی گزشتہ برسوں میں مضبوط ہوئی ہے، اس لیے ان کی آواز سنی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان سے پیدا ہونے والے جذبات کو کبھی بھی دبایا نہیں جاسکتا۔

تو اس بار اس تنازع کو کس نے جنم دیا؟ اس کے پیچھے قومی نصاب کونسل کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ تھی۔ بعدازاں اس کونسل کے ایک رکن نے اسے ’غلط اطلاعات پر مبنی‘ رپورٹ قرار دیا۔

غلط کہی جانے والی اس رپورٹ نے پرائمری سے 12ویں تک کے چند مضامین کے لیے انگریزی زبان کو بطور تدریسی زبان استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ رپورٹ میں مقامی زبانوں کو مکمل طور پر خارج کردیا گیا تھا، جس پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔ شکر ہے کہ کچھ وقت بعد حکومت نے ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ تدریسی زبانوں کا معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس کے باوجود بھی آپ اس معاملے پر مطمئن نہیں ہوسکتے کیونکہ سندھ کو چھوڑ کر تمام ہی صوبوں نے 18ویں ترمیم کے تحت شعبہ تعلیم سے متعلق ملنے والے حقوق کو وفاقی حکومت کے حق میں دستبردار کردیے۔ تعلیم کو انگریزیت اور مزکزیت کی طرف موڑنے سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارادوں سے تو سبھی واقف ہوں گے۔

میں یہاں ذیلی کمیٹی اور قومی نصاب کونسل کی توجہ اس جانب دلانا چاہوں گی کہ صوبائی زبانوں میں پڑھانا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ اہم معاملہ پرائمری سطح پر سائنس کے مضمون سمیت تمام مضامین کو پڑھانے کے لیے مادری زبان کا استعمال ہے۔ انگریزی کو بطور ایک مضمون پڑھانا تو ٹھیک ہے لیکن اسے تدریسی زبان کے طور پر استعمال بے وقوفی ہے۔

مادری زبان کو تدریسی زبان کا درجہ دینے کے معاملے پر پوری دنیا کے ماہرین نے اطمینان بخش دلائل پیش کیے ہیں، جسے میں یہاں مختصراً بیان کرنا چاہوں گی۔

بچہ اپنی مادری زبان فطری طور پر گھر کے ماحول پھر گھر سے باہر ارد گرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ بچے کو زبان سکھانا نہیں پڑتی بلکہ ذہنی عقل و شعور کی فطری نمو کے ساتھ ساتھ وہ خودبخود اپنی مادری زبان سیکھ جاتا ہے۔ یہ عمل پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور اگلے 6 سے 7 برسوں کے لیے جاری رہتا ہے کیونکہ اس دوران بچہ سیلف ایجوکیشن کے عمل کے ذریعے نئی نئی چیزوں کو سیکھ رہا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ماہرینِ تعلیم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی ایک ہیں جو بچوں کو پڑھانے کا حق رکھتے ہیں۔ بچوں کو 2 سے 5 برس کی عمر میں جیسے ہی اسکول میں داخلہ دلوایا جاتا ہے تو ان کا خود سے سیکھنے کا تجربہ دفن کردیا جاتا ہے اور اس وقت وہ بچہ جس زبان کو روانی سے بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اسکول میں بچے کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ واقعی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک خاص زبان لازماً سیکھنی پڑے گی جو اس کے لیے اجنبی ہوتی ہے (90 فیصد سے زائد بچوں کے لیے اردو ایک اجنبی زبان ہے)۔

پھر کیا ہوتا ہے؟ سب سے پہلے تو بچہ تعلیم اور اسکول میں دلچسپی کھو بیٹھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ ارد گرد موجود لوگوں میں تنہا کردیا جاتا ہے، کیونکہ اساتذہ اور دیگر بچے وہ زبان استعمال نہیں کر رہے ہوتے یا پھر اس زبان کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی جسے وہ بچہ سمجھتا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ اپنی زبان بھولنے لگتا ہے۔ نتیجتاً بچہ ’نئے‘ اور ’اجنبی‘ لوگوں سے ایک ’نئی‘ اور ’اجنبی‘ زبان پر عبور حاصل کرنے میں ناکامی کے ساتھ ہی کسی بھی موضوع پر سوچنے کی طاقت و صلاحیت سے محروم ہوتا جاتا ہے۔

یہ عمل اسے ’بے زبان‘ اور رٹے باز طالب علم بنا دیتا ہے۔ اسی بات سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اسکولوں میں قدرے ’اچھی‘ تعلیم کی فراہمی کے باوجود بھی ہمارے بچوں میں حصولِ علم کی کمزوری کی وجہ کیا ہے۔

ان دنوں میں جن 3 چھوٹے لڑکوں کو پڑھا رہی ہوں انہی کی مثال لیجیے۔ 11 سے 13 برس کی عمر کے ان بچوں کو بظاہر انگریزی میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ سے مخاطب ہونے کے لیے میں کون سی زبان استعمال کروں تو انہوں نے یک اواز ہو کر کہا ’انگریزی‘ اور آگے یہ بھی کہا کہ ’ہم اپنی انگریزی بہتر کرنا چاہتے ہیں۔‘

جب میں نے اپنے پرس سے ایک چھوٹا سا پتھر نکالا تو بچوں کی اس میں کافی دلچسپی پیدا ہوئی، دراصل 1990ء میں جب میرا برلن جانا ہوا تب وہاں گرائی گئی دیوار برلن کا ملبہ بکھرا پڑا تھا، وہیں سے میں نے یہ پتھر اٹھایا تھا۔

جب میں نے بچوں کو پتھر کے پیچھے چھپی تاریخ بتانی شروع کی تو انہوں نے کافی احتجاج کیا اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں یہ تاریخ اردو میں بتاؤں۔ جب اردو میں تاریخ بتانی شروع کی تب وہ گفتگو سے کافی محظوظ ہو رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر فائدہ یہ ہوا کہ وہ بچے باآسانی اپنی سوچ اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کر پارہے تھے اور اسی اظہار کے لیے میں ان کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔ کلاس ختم ہونے سے پہلے انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کی تاریخ کو بتانے کے لیے بغیر کسی تیاری کے ایک خاکہ پیش کیا۔

تو یہ ہے زبان کا جادو۔ زبان ہی 2 لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ زبان ہی اساتذہ کا طالب علموں کے ساتھ تعلق قائم کرتی ہے۔ وہ استاد جو یہ کہتا ہے کہ اگر استاد اچھا ہے تو زبان سے کوئی فرق نہیں پڑتا، غلط کہتا ہے۔ ایک استاد کو وہی زبان استعمال کرنی چاہیے جو طالب علم بولتے ہیں۔ وہ استاد جو اس سادہ سی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا وہ یہ نہیں جانتا کہ تعلیم کو قابلِ لطف بنانے کے لیے شراکتی تعلیم لازمی ہے۔


یہ مضمون 14 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں