نماز عید کے دوران افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملہ

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2021
سیکیورٹی اہلکار اس ٹرک کے پاس کھڑے ہیں جہاں سے راکٹ فائر کیے گئے — تصویر: اے ایف پی
سیکیورٹی اہلکار اس ٹرک کے پاس کھڑے ہیں جہاں سے راکٹ فائر کیے گئے — تصویر: اے ایف پی

افغان صدارتی محل کے قریب اس وقت 3 راکٹ آ گرے جب افغان صدر اشرف غنی اور دیگر رہنما یہاں نمازِ عید ادا کرر ہے تھے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ طالبان کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد کابل پر ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے۔

کابل کے گرین زون میں فائر کیے جانے والے راکٹس کی تیز آواز سے لوگ سہم گئے، جہاں صدارتی محل، متعدد سفارتخانے اور امریکا سفارتخانہ بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اشرف غنی کے خطاب کے دوران افغان صدارتی محل پر راکٹوں سے حملہ

صدارتی محل کے آفیشل فیس بک پیچ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں درجنوں افراد کو قریبی راکٹ گرنے کی آواز کے باوجود پرسکون، نماز کی ادائیگی جاری رکھتے ہوئے دیکھا گیا۔

افغان صدر روایتی افغان لباس اور پگڑی پہنے ہوئے تھے جو راکٹ کی آواز سن کر بھی نہیں پلٹے اور تمام نمازی ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے دکھائی دیے۔

نماز کے بعد تقریر کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ 'طالبان نے ثابت کردیا کہ انہیں امن کی کوئی خواہش یا ارادہ نہیں ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان میر واعظ ستانکزئی نے کہا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تینوں راکٹس ایک پک اپ ٹرک سے فائر کیے گئے جن میں سے ایک نہیں پھٹا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: صوبہ کنڑ میں راکٹ حملے کے بعد ہسپتال میں آتشزدگی

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق راکٹ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

قبل ازیں گزشتہ برس بھی صدارتی محل پر اس وقت راکٹ حملہ کیا گیا تھا جب اشرف غنی سمیت سیکڑوں افراد ایک افتتاحی تقریب میں موجود تھے جبکہ حملے کے بعد کچھ فرار ہوگئے تھے۔

اُس حملے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا البتہ داعش نے اس کی ذمہ قبول کی تھی۔

آج کا حملہ ایسے وقت میں ہوا جب غیر ملکی افواج کا انخلا 31 اگست کو مکمل ہونا ہے اور افغانستان بھر میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے برعکس طالبان نے رواں سال عید کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: سرکاری کمپاؤنڈ میں مذہبی تقریب پر راکٹ حملہ، 16 بچے زخمی

قبل ازیں دوحہ میں افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے کے بعد کابل میں موجود نیٹو نمائندوں اور 15 سفارتی مشنز نے طالبان پر حملے روکنے کے لیے زور دیا تھا۔

اس ضمن میں جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'طالبان کے حملے ان کے مذاکراتی تصفیے کی حمایت کرنے کے دعوے سے متضاد ہیں۔۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ان حملوں اور جاری ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں معصوم افغان جانوں کا ضیاع ہوا اور آبادی کی نقل مکانی، لوٹ مار اور عمارات کو نذرِ آتش کیا گیا جبکہ انفرا اسٹرکچر کی تباہی اور مواصلاتی نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں