عراق: مارکیٹ میں بم دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد 36 ہوگئی

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2021
داعش نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی—فوٹو:رائٹرز
داعش نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی—فوٹو:رائٹرز

عراق کے دارالحکومت بغداد کی پرہجومم مارکیٹ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 36 ہوگئی ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق دھماکے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔

مزید پڑھیں: عراق: مارکیٹ میں دھماکے سے 21 افراد ہلاک، 33 زخمی

رپورٹ کے مطابق دھماکا صدر سٹی کے نواحی علاقے میں ہوا جہاں مارکیٹ میں عوام کی بڑی تعداد عیدالاضحیٰ سے قبل اشیائے خورونوش کی خریداری میں مصروف تھی۔

دھماکے کے بعد عراق میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے کہ داعش واپس آگئی ہے جبکہ 2017 میں حکومتی فورسز کی زبردست کارروائیوں کے نتیجے میں ان کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن متعدد علاقوں میں ان کے ٹھکانوں کی موجودگی کا بتایا گیا تھا۔

قبل ازیں عراقی وزارت داخلہ نے اپنےبیان میں کہا تھا کہ بغداد کے مشرق میں موجود صدر سٹی کے وحیلت بازار میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

داعش نے پیغام رسانی کی سروس ٹیلی گرام کے ذریعے بیان میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ خود کش بمبار نے وحیلت مارکیٹ میں دھماکا خیز بیلٹ اڑا دی۔

عراقی صدر بہرام صالح نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عید کے موقع پر یہ واقعہ وحشیانہ عمل ہے اور دہشت گرد عوام کو خوشی کا موقع بھی منانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی جبکہ جرمن سفارت خانے بھی حملے پر غم کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بغداد میں دو خود کش بم دھماکے، 28 افراد ہلاک

عراقی حکام نے تاحال سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد سے آگاہ نہیں کیا لیکن میڈیکل ذرائع نے تصدیق کی کہ 36 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوگئے ہیں۔

’بزدلانہ حملہ’

عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ الخدیمی نے کہا کہ بزدلانہ حملے سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو ہماری بہادر فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں شکست کے بعد دوبارہ پاؤں جمانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

عراق میں خودکش بم دھماکا ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب وزیراعظم مصطفیٰ الخدیمی چند روز بعد امریکی صدر جوبائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کرنے جا رہے ہیں جبکہ اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات بھی شیڈول ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں بغداد کے مصروف بازار میں ہونے والے ایک ساتھ دو خودکش دھماکوں میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

مذکورہ دھماکا شہر میں گزشتہ تین سال میں ہونے والا خطرناک ترین دھماکا تھا، بغداد میں اس طرح کی پرتشدد کارروائیاں فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کے دوران عام تھیں جس کے بعد 2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کیا تھا، بعد ازاں داعش نے عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور بغداد کو بھی اپنا ہدف بنایا۔

مزید پڑھیں:پڑھیں: عراق: راکٹ حملے میں غیر ملکی ہلاک، متعدد 'امریکی کنٹریکٹرز' زخمی

داعش کے خلاف عراق کی مہم کی حمایت کرنے والے امریکا کے زیر قیادت اتحاد نے گزشتہ سال عراقی فورسز کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی افواج کی تعداد کم کردی تھی۔

امریکا، جس کی اتحادی فوج میں اہلکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، کی فوج کی تعداد کم ہو کر ڈھائی ہزار رہ گئی ہے۔

یہ امریکی فوجی ٹریننگ، ڈرون نگری اور فضائی حملے کرتے ہیں جبکہ شہری علاقوں کی سیکیورٹی عراقی فورسز نے سنبھال رکھی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں