عراق: راکٹ حملے میں غیر ملکی ہلاک، متعدد 'امریکی کنٹریکٹرز' زخمی

اپ ڈیٹ 16 فروری 2021
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور عزم کا اظہار کیا کہ ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور عزم کا اظہار کیا کہ ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

امریکی قیادت میں قائم متعدد ممالک کی افواج کے اتحاد کا کہنا ہے کہ عراق کے کردستان کے علاقے میں متعدد راکٹس نے ایئربیس کو نشانہ بنایا جس میں ایک غیر ملکی شہری ہلاک اور 5 امریکی زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پیر کی رات ہونے والا یہ حملہ قریب دو ماہ کے دوران پہلا واقعہ ہے جس میں عراق میں مغربی ممالک کی فوجی یا سفارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی عزم کا اظہار کیا کہ 'ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: عراق: راکٹ حملے میں امریکی اتحادی افواج کے 3 اہلکار ہلاک

انہوں نے مزید تفصیلات بتائے بغیر مزید کہا کہ واقعے میں 'متعدد امریکی کانٹریکٹر' زخمی ہوئے ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کے راکٹ حملوں میں ایک امریکی شہری کے قتل سے عراق میں بڑے پیمانے پر بمباری مہم کا آغاز ہوسکتا ہے۔

عراقی اور مغربی سیکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ شہر کے ایئرپورٹس کی سمت میں کم از کم تین راکٹ فائر کیے گئے جہاں غیرملکی افواج کا ایک بین الاقوامی اتحاد عسکریت پسند گروپ داعش سے لڑ رہا ہے۔

اتحادی فوج کے ترجمان کرنل وین ماروٹو نے اے ایف پی کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والا کنٹریکٹر عراقی نہیں تھا تاہم متاثرہ شہری کی قومیت کے بارے میں فوری طور پر تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

جہاں عراق نے داعش کے خلاف 2017 کے آخر میں فتح کا اعلان کیا تھا وہیں اس اتحاد کو 3 ہزار 500 فوجیوں تک کم کردیا گیا ہے جن میں سے 2500 امریکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ

واضح رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری 'اولیا الدم' (خون کے نگہبانوں) نامی گروپ نے قبول کی ہے۔

گزشتہ سال بھی اس طرح کے ایک درجن کے قریب گروہ سامنے آئے تھے جنہوں نے راکٹ حملوں کے دعوے کیے تھے تاہم امریکی اور عراقی سیکیورٹی عہدیداروں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ ایران کے حامی گروپس، جیسے حزب اللہ اور اسائب اہل الحق کے فرنٹ گروپس ہیں۔

اربیل کے مضافاتی علاقوں میں دو دیگر راکٹ رہائشی علاقوں پر آکر گرے۔

اربیل کے محکمہ صحت کے سربراہ ڈیلووان جلال نے اے ایف پی کو بتایا کہ کم از کم پانچ شہری زخمی ہوئے ہیں اور ایک کی حالت تشویشناک ہے۔

مزید پڑھیں: عراق: داعش کے خلاف آپریشن میں 2 امریکی فوجی ہلاک

کردستان کے علاقے کی وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 'متعدد راکٹوں' نے اس شہر کو نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے ایک 'تفصیلی تفتیش' شروع کی ہے جس میں شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مزید ہدایات تک گھروں میں ہی رہیں۔

اے ایف پی کے نمائندے نے بتایا کہ حملے کے بعد ایئرپورٹس کے چاروں طرف تعینات سیکیورٹی فورسز اور ہیلی کاپٹرز کو شہر کے اطراف میں پرواز کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

'خطرناک کشیدگی'

علاوہ ازیں عراقی صدر برھم صالح نے ٹوئٹ کرکے حملے کو دہشت گردی قرار دیا اور کہا کہ 'اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا'۔

خود مختار کرد علاقے کے وزیر اعظم مسرور بارزانی نے اس حملے کی 'سخت ترین الفاظ میں' مذمت کی۔

انٹیلی جنس کے دو ذرائع نے اے ایف پی کو تصدیق کی ہے کہ یہ حملہ خودمختار کرد علاقے سے ہی کیا گیا تھا۔

مغربی فوجی اور سفارتی مقامات پر سنہ 2019 کے آخر سے اب تک درجنوں راکٹس اور سڑک کے کنارے نصب بم دھماکے کیے گئے ہیں جس میں غیر ملکی اور عراقی دونوں اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں