ہم ہمیشہ ہی دل کی صحت کی بات کرتے یا سنتے ہیں مگر دماغی صحت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ہمارے دماغ کو بھی بہت زیادہ توجہ اور درست غذا کے ذریعے اس کی صحت کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ واضح طور پر سوچنے، توجہ مرکوز کرنے، توانائی اور ہرممکن حد تک بہتر کام کرنے کے قابل ہوسکے۔

اس دور میں جب دنیا بھر میں دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں نوجوانی سے ہی دماغ کے لیے صحت مند غذاﺅں کے انتخاب پر غور کرنا چاہیے۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں، لیکن ہم اپنے ذہن کو ضرور ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔

مگر کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور ذہنی تنزلی کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔

مارجرین اور میٹھی کریم کی تہہ والی اشیا

یہ غذائیں ٹرانس فیٹس سے بھرپور ہوتی ہیں، اگر آپ کو علم نہیں تو جان لیں کہ ٹرانس فیٹس دل اور خون کی شریانوں کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق چکنائی کی یہ قسم دماغی افعال کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ جریدے نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمر افراد کے خون میں اگر ٹرانس فیٹ کی ایک عام قسم elaidic acid کی شرح زیادہ ہو تو ان میں ڈیمینشیا کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

سوڈا اور دیگر میٹھے مشروبات

اگر آپ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی غذا میں سے میٹھے مشروبات کو نکال دیں۔

طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ سافٹ ڈرنکس، میٹھی چائے اور دیگر میٹھے مشروبات پینے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں یادداشت کے مسائل کا خطرہ بھی دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

ان مشروبات میں عموماً چینی کی ایک قسم فریکٹوز موجود ہوتی ہے جو دماغ کے مخصوص حصوں کا حجم چھوٹا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

ڈائٹ سوڈا اور مصنوعی مٹھاس والے مشروبات

اگر عام سافٹ ڈرنکس کی جگہ شوگر فری مشروبات کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ بھی کوئی اچھا خیال نہیں۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ دن بھر میں ایک ڈائٹ سافٹ ڈرنک پینے کے عادی ہوتے ہیں ان میں فالج یا ڈیمینشیا کا خطرہ لگ بھگ 3 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

فرنچ فرائیز اور دیگر تلے ہوئے پکوان

جو لوگ تلی ہوئی غذائیں بہت زیادہ کھاتے ہیں وہ سوچنے کی صلاحیت کی جانچ پڑتال کرنے والے ٹیسٹوں میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ تلی ہوئی چکنائی سے بھرپور غذائیں ورم کا باعث بنتی ہیں، جس سے دماغ کو خون پہنچانے والی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغ کے لیے بھی یہ غذائیں نقصان دہ ہوتی ہیں۔

ڈونٹس

یہ مزیدار سوغات تیل میں تلی جاتی ہے اور اس میں چینی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، یہ امتزاج دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

ڈیپ فرائی اور اضافی چینی کے اس امتزاج سے ورم کے امکان ہوتا ہے، جبکہ خون میں شوگر کی سطح بڑھنا بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

مزید یہ کہ بیشتر ڈونٹس میں ٹرانس فیٹس موجود ہوتے ہیں جن کے نقصانات کا ذکراوپر ہوچکا ہے۔

سفید ڈبل روٹی اور چاول

ریفائن کاربوہائیڈریٹس چاہے مٹھاس سے پاک ہی کیوں نہ ہوں، بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافے کا باعث بنتے ہیں، جس میں اچانک کمی بھی آتی ہے، جس سے ذہن پر دھند چھانے کا احساس ہوتا ہے۔

تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ بہت زیادہ ریفائن کاربوہائیڈریٹس کا استعمال الزائمر امراض کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، بالخصوص جینیاتی طور پر خطرے سے دوچار افراد کے لیے۔

تو اناج، برئون چاول اور دیسی آٹے کو ترجیح دینا دماغی صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

سرخ گوشت

سرخ گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ مقدار میں اسے کھانا دل کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ایسا نہیں کہ اسے اپنی غذا کا حصہ نہ بنائیں مگر مقدار کو محدود رکھنا زیادہ بہتر ہے۔

مکھن اور زیادہ چکنائی والا پنیر

دودھ سے بنی زیادہ چکنائی والی یہ مصنوعات بھی زیادہ مقدار میں کھانا بھی دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

درحقیقت کم چکنائی والی دودھ سے بنی مصنوعات کے زیادہ صحت بخش سمجھا جاتا ہے، جیسے دودھ، دہی، کاٹیج چیز اور دیگر۔

الکحل

الکحل کا استعمال صحت کے لیے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں اور اس کی معمولی مقدار بھی دماغی ساخت اور افعال کے لیے زہر ثابت ہوتی ہے، چاہے عمر کوئی بھی ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں