قندھار میں طالبان سے سرکاری فورسز کی لڑائی، ہزاروں خاندانوں کی ہجرت

اپ ڈیٹ 10 اگست 2021
حکام کے مطابق ایک ماہ کے دوران 22 ہزار خاندان علاقہ چھوڑ گئے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
حکام کے مطابق ایک ماہ کے دوران 22 ہزار خاندان علاقہ چھوڑ گئے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے سابق مرکز قندھار سے 22 ہزار سے زائد افغان خاندان ہجرت کرگئے ہیں جہاں طالبان اور سرکاری فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قندھار افغانستان کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں مئی سے کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد پیش قدمی کی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت نے 31 صوبوں میں کرفیو نافذ کردیا

طالبان نے اس پیش قدمی کے دوران کئی اضلاع، سرحدوں اور متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا۔

صوبائی محکمہ برائے مہاجرین کے سربراہ دوست محمد دریاب کا کہنا تھا کہ لڑائی کے نتیجے میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 22 ہزار خاندان علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام خاندان ضلعے کے ان علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں جہاں حالات کشیدہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق قندھار کے مضافات میں تاحال لڑائی جاری ہے۔

قندھار کے ڈپٹی گورنر لالئی دستگیر نے بتایا کہ چند سیکیورٹی فورسز خاص کر پولیس کی غفلت کی وجہ سے طالبان کو قریب آنے کا موقع مل گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مقامی انتظامیہ نے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے 4 کیمپس بنائے ہیں جہاں تقریباً ایک لاکھ 54 ہزار افراد کی گنجائش ہوگی۔

قندھار کے شہری حافظ محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ہم گھر خالی کرکے علاقے سےنکل آئے تھے جس کے بعد طالبان وہاں بیٹھ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے میں ملوث 4 طالبان جنگجو گرفتار

انہوں نے کہا کہ انہوں میں ہمیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور اب میں اپنے خاندان کے 20 افراد کے ہمراہ ایک ایسے کمپاؤنڈ میں موجود ہوں جہاں ٹوائلٹ بھی نہیں ہے۔

شہریوں میں جنگ کا خوف

شہریوں نے آنے والے دنوں میں لڑائی میں اضافے کے خدشات کا اظہار کیا۔

کیمپ میں منتقل ہونے والے شہری خان محمد نے کہا کہ اگر وہ واقعی میں لڑائی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں صحرا میں جا کر لڑائی کرنی چاہیے اور ہمارے شہر تباہ نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ جیت بھی جاتے ہیں تو وہ ایک وہشت زدہ شہر میں حکومت نہیں کرسکتے۔

قندھار افغانستان کا دوسرا بڑا شہر جہاں کی آبادی 6 لاکھ 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

افغانستان کا جنوبی صوبہ 1996 سے 2000 کے دوران طالبان کا مرکز تھا جب ان کی حکومت ہوا کرتی تھی۔

طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اپنے کھوئے ہوئے شہروں پر دوبارہ قبضے کا آغاز کیا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔

دوسری جانب افغان حکام نے طالبان کے حالیہ حملوں سے بڑھنے والی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ملک کے 34 میں سے 31 صوبوں میں رات کے اوقات کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے۔

افغان وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'تشدد پر قابو پانے اور طالبان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے کابل، پنج شیر اور ننگرہار کے علاوہ ملک کے 31 صوبوں میں رات کے اوقات کے لیے کرفیو نافذ کیا جارہا ہے'۔

مزید پڑھیں: 'طالبان نے تشدد اور قبضے کا سلسلہ نہ روکا تو فضائی حملوں کیلئے تیار رہیں'

نائب ترجمان افغان وزارت داخلہ احمد ضیا نے صحافیوں کو جاری آڈیو بیان میں کہا کہ 'کرفیو کا اطلاق رات 10 بجے سے صبح 4 بجے تک ہوگا'۔

عیدالاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران پرتشدد واقعات میں مختصر وقفے کے بعد دوبارہ لڑائی شروع ہوگئی ہے اور انتظامیہ نے مختلف صوبوں میں گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران 260 سے زائد طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

افغان انتظامیہ اور طالبان دونوں اپنے دعوؤں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو کہا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں پرتشدد واقعات میں اضافے کے بعد امریکی فوج نے طالبان کو پیچھے دھکیلنے اور افغان فوسز کی مدد کے لیے فضائی کارروائی کی، جبکہ افواج کا حتمی انخلا جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں