'طالبان نے تشدد اور قبضے کا سلسلہ نہ روکا تو فضائی حملوں کیلئے تیار رہیں'

اپ ڈیٹ 30 جون 2021
امریکی کمانڈر اسکاٹ ملر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فضائی حملے نہ کیے جائیں لیکن اس کے آپ کو تمام تر تشدد کو روکنا ہو گا— فوٹو: اے پی
امریکی کمانڈر اسکاٹ ملر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فضائی حملے نہ کیے جائیں لیکن اس کے آپ کو تمام تر تشدد کو روکنا ہو گا— فوٹو: اے پی

افغانستان میں امریکی کمانڈر نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے ملک بھر میں نئے علاقوں پر قبضوں اور پرتشدد حملوں کا سلسلہ ختم نہ کیا تو فضائی حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مئی کے اوائل میں امریکی فوج کی جانب سے انخلا کے اعلان کے بعد سے افغانستان کے 400 سے زیادہ اضلاع میں سے 100 سے زائد اضلاع پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور اس ماحول میں دیہی علاقوں میں افغان طالبان اور مقامی سیکیورٹی فورسز میں لڑائی نے شدت اختیار کر لی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: قندوز میں لڑائی کے دوران 28 افراد ہلاک

منگل کو کابل میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل اسکاٹ ملر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فضائی حملے نہ کیے جائیں لیکن فضائی حملوں سے بچنے کے لیے آپ کو تمام تر تشدد کو روکنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے طالبان کو کہا ہے کہ ان کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جارحانہ کارروائیوں اور فضائی حملوں کو روکا جائے، انہوں نے باور کرایا کہ انخلا کا عمل جاری رہنے کے باوجود امریکی فوج، طالبان کے خلاف فضائی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال 11 ستمبر کو امریکی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ کے خاتمے کے اعلان کیا تھا اور بقیہ فوج کا اسی تاریخ تک انخلا کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

طالبان کی جانب سے مختلف اضلاع پر قبضے کے دعوؤں کو اکثر سرکاری عہدیدار متنازع قرار دیتے ہیں البتہ ان کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق مشکل ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران نئے اضلاع کے بیشتر حصوں پر طالبان کے قبضے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں لڑنے والی افغان فوج کے لیے امریکی فضائی مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی فوجیوں کا انخلا: روس نے افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کردیا

اسکاٹ ملر نے اعتراف کیا کہ کسی بھی علاقے پر قبضے کے ملک کی مجموعی سلامتی اور سیکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اضلاع اہم علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کا عوام، صوبائی دارالحکومتوں اور یقینی طور پر دارالحکومت کی سلامتی سے اہم تعلق ہے۔

طالبان نے حال ہی میں قندوز شہر کے آس پاس کے دیگر اضلاع کے ساتھ شمال میں تاجکستان کے ساتھ ایک اہم سرحدی گزر گاہ پر قبضہ کرلیا جس کے بعد عملی طور پر شہر کا محاصرہ ہو چکا ہے۔

طالبان نے ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل پر قبضے کے لیے فوج پر دباؤ ڈالیں گے۔

اسکاٹ ملر نے کہا کہ فوجی قبضہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، یقینی طور پر افغانستان کے لوگوں کے حق میں تو بالکل بھی نہیں ہے، مجموعی طور پر سیکیورٹی کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: دفتر خارجہ نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے بارے میں کابل کے بیان کو مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جسے افغان سیکیورٹی فورسز نے تسلیم کیا ہے اور جب ہم یہاں سے نکلیں گے تو وہ مناسب ایڈجسٹمنٹ کر لیں گے۔

طالبان کے بڑھتے ہوئے پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والی افغان وزارت داخلہ نے منگل کے روز اپنے بیان میں کہا کہ اس نے ایک 4 ہزار افراد پر مشتمل 'ریپڈ ری ایکشن فورس' تشکیل دی ہے جس کی سربراہی فوج کے ریٹائرڈ جرنیل کریں گے جو باقاعدہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کا مقابلہ کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں