ایف آئی اے کو سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2021
انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے — فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل درآمد کی رپورٹ طلب کی اور ایجنسی کو ہدایت کی کہ وہ معاملے پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ہدایت اس وقت سامنے آئی جب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ (سی سی ڈبلیو) کی جانب سے شہریوں بالخصوص صحافیوں کو جاری نوٹس کے خلاف کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سی سی ڈبلیو کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ (پیکا) کے تحت 22 ہزار 877 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 30 شکایات صحافیوں کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے

جسٹس اطہر من اللہ نے تحقیقاتی ایجنسی کو تجویز دی کہ وہ اس تاثر کو ختم کرے کہ صحافیوں کو حکومت اور اداروں پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، اگر کوئی سوشل میڈیا پر کسی مواد سے اپنی تذلیل محسوس کرتا ہے تو وہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر سکتا ہے یا اپنی شکایت کے ازالے کے لیے دیگر قانونی راستوں کا انتخاب کر سکتا ہے'۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے سے کہا کہ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ایس او پیز پر عمل درآمد کروائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ پیکا کا غلط استعمال نہ ہو۔

ایک صحافی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ سی سی ڈبلیو نے انہیں طلب کیا اور ان کی معلومات کے ذرائع کے بارے میں دریافت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اختیارات کا 'بے جا استعمال': عدالت کی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کی سرزنش

ان کا کہنا تھا کہ 'کیا یہ پولیس ریاست ہے؟ یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا'۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قانون ساز کنول شوزب کے کیس کا بھی حوالہ دیا جس میں ایف آئی اے نے ایک شہری کو معاملے کی نوعیت کو سمجھے بغیر ہی طلب کرلیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے اہلکاروں کو سزا دی جانی چاہیے تھی۔

عدالت نے سماعت رجسٹرار آفس کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں