افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ترجمان دفترخارجہ کی وضاحت

اپ ڈیٹ 02 اگست 2021
شاہ محمود قریشی کے بیان پر افغان میڈیا میں تنقید کی گئی تھی—فائل/فوٹو: اے پی
شاہ محمود قریشی کے بیان پر افغان میڈیا میں تنقید کی گئی تھی—فائل/فوٹو: اے پی

ترجمان دفترخارجہ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش اور افغان طالبان کے حوالے سے ان کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں پاکستان کسی خاص فریق کی طرف داری نہیں کر رہا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے شاہ محمود قریشی کے بیان پر وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے افغانوں کی سربراہی میں امن عمل کے حوالے سے دیے گئے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ’افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کے ذمہ دار یا ان کے ترجمان نہیں‘

انہوں نے کہا کہ ‘وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری، علاقائی فریقیں اور خود افغانوں کے درمیان اتفاق رائے پر واضح بات کی تھی، ان کے الفاظ کو افغان تنازع میں کسی خاص فریق سے غلط طریقے سے نہیں جوڑا جاسکتا’۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ ‘ہم مسلسل کہتے آئے ہیں کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم تنازع میں تمام فریقین کو افغانوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، جنہیں خود اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم افغان امن عمل میں تعمیری تعاون کا کردار ادا کرتے رہیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام تر توجہ افغان تنازع کے وسیع بنیاد پر جامع اور سیاسی حل نکالنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

خیال رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دو روز قبل ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے ایک سوال پر کہا تھا کہ ‘اگر وہ عراق یا شام سے منتقل ہو رہے ہیں تو اس کو دیکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ افغان حکومت کی’۔

انہوں نے کہا تھا کہ ‘ان پر کس نے نظر رکھنی اور نگرانی کرنی ہے؟ افغان حکمران اور حکومت کو کرنا پڑے گی، مجھے امید ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری میں غفلت کے مرتکب نہیں ہوں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی طالبان، افغانستان کے ہمسایہ اور عالمی برادری بھی داعش کی واپسی نہیں چاہتی، اس معاملے پر ایک اتفاق رائے ہے، اب ان کے پاس ایک ذمہ داری ہے اور انہیں اس کو پورا کرنا ہے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا مذکورہ بیان سوشل میڈیا اور افغانستان کے میڈیا میں یوں پیش کیا گیا تھا جیسے وہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے افغان حکومت کے بجائے طالبان سے توقع رکھتے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی افواج کی واپسی کی ڈیڈ لائن سے طالبان پر ہمارا اثر ختم ہوگیا، وزیر اعظم

پاکستان، افغان تنازع کے حوالے سے اس طرح کے الزامات کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے اور جون میں اسلام آباد میں منعقدہ پاک-افغان دوطرفہ مذاکرات کے افتتاحی سیشن میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان نے واضح فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کے داخلی معاملات پر مداخلت نہیں کی جائے گی۔

وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ ‘ہمارے کوئی فیورٹ نہیں ہیں، ایک عام تاثر ہے کہ ہم طالبان کے حامی ہیں، میں ان کی نمائندگی نہیں کرتا، میں پاکستان کا نمائندہ ہو جبکہ طالبان افغان ہیں’۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے افغان میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان کسی طور پر طالبان کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی ان کا ترجمان ہے۔

داعش کی واپسی

روس نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں تیزی سے خراب ہوتے حالات کے دوران داعش کے جنگجو افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔

روس کے وزیر دفاع شوگو نے کہا تھا کہ شام، لیبیا اور دیگر کئی ممالک سے دہشت گرد یہاں آرہے ہیں۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ متعدد علاقوں میں ان کی نقل و حرکت منظم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

کابل میں عیدالاضحیٰ کے دوران صدارتی محل میں راکٹ حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں