مسجد الحرام میں کرین گرنے کا واقعہ: مکہ کی عدالت نے 13 ملزمان کو بری کردیا

اپ ڈیٹ 05 اگست 2021
کرین حادثہ 11 ستمبر 2015 کو ہوا تھا، جس میں 108 افراد ہلاک اور 238 زخمی ہوئے تھے۔  - فائل فوٹو:اے ایف پی
کرین حادثہ 11 ستمبر 2015 کو ہوا تھا، جس میں 108 افراد ہلاک اور 238 زخمی ہوئے تھے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

مکہ کی کرمنل کورٹ نے مسجد الحرام میں کرین حادثے کے 13 ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ جاری کردیا جن میں سعودی بن لادن گروپ بھی شامل ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل یکم اکتوبر 2017 کو جاری ہونے والے پہلے فیصلے میں مکہ کی عدالت نے 13 ملزمان کو بری کردیا تھا جن پر غفلت کا الزام تھا۔

غیر ملکی میڈیا گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا کہ مدعا علیہ مجرمانہ طور پر اس واقعے کے ذمہ دار نہیں ہیں جس میں 11 ستمبر 2015 کو گرینڈ مسجد توسیعی منصوبے میں شامل ایک کرین گرنے سے 108 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 238 زخمی ہوئے تھے۔

اپنے گزشتہ فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ یہ تباہی انسانی غلطی کے بجائے گرچ چمک کے ساتھ تیز بارش کی وجہ سے ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: مکہ کرین حادثے میں ملوث 13 ملزمان بری: رپورٹس

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 'کرین سیدھی، درست اور محفوظ پوزیشن میں تھی، ملزمان نے کوئی غلطی نہیں کی تھی اور تمام ضروری حفاظتی اقدامات کیے تھے'۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل نے پہلے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اپیل دائر کی تھی، جس پر اپیل کورٹ نے دسمبر 2017 میں فوجداری عدالت کے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

اپیل کورٹ نے ریفرنس دیا کہ کرین ایک محفوظ پوزیشن میں رکھی گئی تھی تاہم شدید طوفان اور پرتشدد ہواؤں کی وجہ سے گر گئی۔

تاہم اپیل کورٹ نے کرمنل کورٹ سے کہا کہ وہ اس کیس کا دوبارہ جائزہ لے۔

عدالت نے کرین حادثے کے کیس کے تمام پہلوؤں کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد نیا فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ جنرل اتھارٹی آف میٹرولوجی اینڈ انوائرمنٹل پروٹیکشن نے حادثے کے روز اور اس سے ایک روز قبل موسمی حالات پر انتباہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بحیرہ احمر میں ہوا کی رفتار ایک سے 38 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہے تاہم اس میں سمندری طوفان کے امکان کے ساتھ موسمی حالات کے بارے میں انتباہ شامل نہیں تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ مقدمے میں موسمیات اور ماحولیاتی تحفظ کے جنرل اتھارٹی کے انتباہ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے جس کے باعث یہ تباہی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد الحرام کرین حادثہ: 11 پاکستانی جاں بحق

عدالت نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اس دن مکہ مکرمہ میں جو کچھ ہوا وہ کسی آسمانی واقعہ سے منسلک ہو سکتا ہے جس کی پیش گوئی کرنا مشکل تھا جس کی وجہ سے سانحہ کے مدعا علیہان کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اپیل کورٹ نے اپنے پہلے فیصلے میں حرم کے توسیعی منصوبے کے حفاظتی ڈویژن کے اقدامات کو واضح، متعین کرنے اور جاننے کی ضرورت پر زور دیا تھا کیونکہ اس منصوبے پر عمل کرنے والی کمپنی کے پاس موسم کے اتار چڑھاؤ کی نگرانی کے لیے ایک مربوط محکمہ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ موسمی حالات کا پتا لگانے اور اس کی پیشن گوئی کرنے کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ہے اور اسے موسمیاتی رپورٹس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اپیل کورٹ کے ریمارکس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملزمان میں سے کسی نے بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ اس پروجیکٹ سے متعلق ایک خاص موسمیاتی یونٹ ہے۔

عدالت نے محکمہ تحفظ سے وابستہ محکمہ ماحولیات کی جانب سے ڈیوٹی میں کوتاہی اور موسمی حالات کے بارے میں رپورٹ جمع کرنے اور روزانہ کی رپورٹوں کی تیاری میں اس کے کردار کی بھی نشاندہی کی۔

عدالت نے ہدایت دی کہ واقعے کے اس پہلو کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔

مسجد الحرام میں کرین گرنے کا واقعہ

یاد رہے کہ ستمبر 2015 میں مسجد الحرام میں تعمیراتی کام کے دوران تیز ہواؤں کے باعث کرین گرنے کے نتیجے میں غیر ملکیوں سمیت کم از کم 109 عازمین حج جاں بحق اور 238 زخمی ہوئے تھے، جس میں 47 پاکستانی بھی شامل تھے۔

اس واقعے میں 13 افراد کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا، جن پر غفلت کے باعث اموات واقع ہونے، عوامی ملکیت کو نقصان پہنچانے اور حفاظتی ہدایات کو نظر انداز کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

مسجد الحرام میں حادثے کا سبب بننے والی کرین وہاں توسیع کے کام کے سلسلے میں نصب کی گئی تھی۔

دوسری جانب شاہ سلمان نے حادثے کے بعد توسیعی منصوبے پر کام کرنے والے تعمیراتی کمپنی سعودی بن لادن گروپ پر پابندی عائد کردی تھی۔

بعد ازاں اکتوبر 2017 میں سعودی عدالت نے مسجد الحرام میں ہونے والے کرین حادثے میں غفلت برتنے پر ملزم ٹھہرائے جانے والے 13 افراد کو بری کردیا تھا، دوسری جانب اٹارنی جنرل نے فیصلے پر اعتراض لگاتے ہوئے اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت نے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں