’امریکا، افغان سرحد سے ملحقہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر پاکستان سے بات کررہا ہے‘

اپ ڈیٹ 10 اگست 2021
ترجمان پینٹاگون نے کہا کہ امریکہ افغان فورسز کی بے شمار طریقوں سے مدد کر رہا ہے—تصویر: یو ایس ڈیفنس ویب سائٹ
ترجمان پینٹاگون نے کہا کہ امریکہ افغان فورسز کی بے شمار طریقوں سے مدد کر رہا ہے—تصویر: یو ایس ڈیفنس ویب سائٹ

پینٹاگون نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا ہے کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں عدم استحکام پیدا کررہی ہیں اور امریکا ان ٹھکانوں کو ’بند کرنے‘ کے لیے پاکستانی قیادت سے بات چیت کررہا ہے۔

واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان ایف کربی نے کہا کہ ’ہم سب کو ان محفوظ ٹھکانوں کو بند کرنے اور انہیں طالبان یا دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کے ذریعے شورش پیدا کرنے کے لیے استعمال کی اجازت نہ دینے کی اہمیت کا مشترکہ احساس ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ذہن میں یہ بات بھی ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام اس علاقے سے نکلنے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کا شکار بنتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ملک کا دفاع افغان سیکیورٹی فورسز پر منحصر ہے، امریکا

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکا، افغان فورسز کی بے شمار طریقوں سے مدد کر رہا ہے، ’افغانوں کے پاس گنجائش ہے، قابلیت ہے، ایک باصلاحیت ایئرفورس ہے‘۔

اس پر ترجمان پینٹاگون سے کہا گیا کہ وہ افغان ایئرفورس کے مسلح ہونے سے متعلق اپنے بیان کا ثبوت دیں کیوں کہ افغانستان کے 6 صوبائی دارالحکومت طالبان کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں۔

اس پر جان ایف کربی نے کہا کہ ’میرے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس 3 لاکھ سے زائد سپاہیوں اور پولیس کی طاقت ہے، وہ ایک جدید ایئرفورس ہے جس کے پاس جدید ہتھیار ہیں جبکہ ان کا ایک تنظیمی ڈھانچہ بھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے بہت سے فوائد ہیں جو طالبان کے پاس نہیں ہیں، طالبان کے پاس ایئرفورس نہیں ہے ان کے پاس ایئر اسپیس نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ

افغانستان میں بھارت کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے ماضی میں ’تربیت اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری‘ کی صورت میں افغانستان میں ایک ’تعمیری کردار‘ ادا کیا تھا۔

افغانستان میں پاکستان اور بھارت کے ممکنہ کردار کے بارے میں ترجمان پینٹاگون کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ تمام ہمسایہ ممالک ایسی کارروائیاں نہ کریں جو افغانستان کی صورتحال کو مزید خطرناک بنادے‘۔

انہوں نے افغان سرزمین کے پڑوسی ممالک پر زور دیا کہ اس جنگ کے پُر امن سیاسی تصفیے کے لیے بین الاقوامی دباؤ استعمال کرتے رہیں۔

واضح رہے کہافغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو نے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق کیا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیرملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نطر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور اب صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی جاری ہے جس میں سے 6 کا کنٹرول وہ حاصل کرچکے ہیں۔

اس سے قبل بھی امریکا اور افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزامات عائد کیے جاچکے ہیں تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں