مہنگائی میں کمی کیلئے کسانوں کی آمدنی دگنی کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 11 اگست 2021
وزیر اعظم عمران خان بہاولپور میں کسان کنونشن سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم عمران خان بہاولپور میں کسان کنونشن سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے 84 لاکھ کسان اس ملک کا اثاثہ ہیں اور ملک میں مہنگائی میں کمی کے لیے کسانوں کی آمدنی دگنی کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسان کی پیداوار میں اضافے سے اشیائے خور ونوش کی قیمتیں نیچے آ جائیں۔

وزیراعظم نے بہاولپور میں کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کنونشن کے انعقاد کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ اگر یہ ملک اپنے لاکھوں کسانوں کی مدد کر گیا تو یہ ملک ترقی کر جائے گا۔

مزید پڑھیں: فوڈ سیکیورٹی ہمارے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتی ہے، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ ایک مہم چلی ہوئی تھی کہ اس ملک کو جاگیرداروں نے تباہ کردیا لیکن شہر کے لوگ تو جاگیردار اور کسانوں میں فرق ہی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں 26 ہزار وہ لوگ ہیں جن کی زمین 125 ایکڑ سے زیادہ ہے تو جب لوگ کہتے تھے کہ جاگیردار ٹیکس نہیں دیتے اور انہوں نے لوگوں پر ظلم کیا تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ 26 ہزار سے بھی کم ہیں، اس ملک کی اصل جان اس ملک کے کسان ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں 84 لاکھ کسان ہیں جو اس ملک کا اثاثہ ہیں، آج مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں محنت کش کسانوں کے پاس 1100 ارب روپے اضافی گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں قانون کی نہیں طاقت کی بالادستی رہی ہے، شوگر ملز والے طاقتور تھے تو کسانوں کی ٹرالی کھڑی رہ جاتی تھی اور انہیں اپنے گنے کی قیمت بھی نہیں ملتی تھی، جو ریٹ دیے جاتے اس سے کم پیسے ملتے تھے، کٹوتی ہوتی تھی اور محنت کرنے والے کو اپنی محنت کا پھل نہیں ملتا تھا اور طاقتور نفع کما رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فیصلہ کیا ہے زرعی شعبے کی سربراہی میں خود کروں گا، وزیراعظم

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سب دیکھتے ہوئے ہم نے قانون سازی کی کہ کس دن شوگر ملز کرشنگ شروع کریں گی اور اگر وہ نہیں کریں گی تو ان پر جرمانہ کیا جائے گا، ہم نے کسانوں کو پوری قیمت دلوائی اور اسی طرح کسانوں کو گندم اور مکئی کی بھی صحیح قیمت ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا، جب کسان کمائے گا تو وہ اپنی زمین پر لگائے گا، زمین کی پیداوار بڑھے گی، ملک کو فائدہ ہو گا، ملک میں غربت کم ہو گی اور کسان کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ اشیائے خور ونوش کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔

انہوں کہا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کو چیزیں برآمد کرنے والا پاکستان آج اشیا برآمد کررہا ہے، جب ملک بنا تو ہماری آبادی 4 کروڑ تھی لیکن آج آبادی ساڑھے 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور جب آبادی اتنی بڑھے گی تو ہمیں پیداوار بھی اسی طرح سے چاہیے، اس سال ہماری گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی لیکن اس کے باوجود ہم 40 لاکھ ٹن گندم درآمد کررہے ہیں۔

اس موقع انہوں نے ملک میں تعلیم اور تحقیق کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں 12 موسم ہیں اس لیے ہم یہاں ہر چیز اُگا سکتے ہیں لیکن اس پر تحقیق کی جانی تھی کہ کس جگہ پر کیا چیز اگانے سے فائدہ ہو گا، دنیا تحقیق کر کے ہی آگے بڑھی ہے۔

مزید پڑھیں: کسی لابی یا کاروباری مفاد کا حصہ نہیں ہوں، وزیر اعظم

وزیر اعظم نے بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تحقیقی کام پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس سلسلے میں فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہیں تو ہمیں غربت میں میں کرنی ہو گی، اگر کسی ملک میں تھوڑے امیر لوگ اور غریبوں کا سمندر ہو تو کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا، ملک ترقی اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کمزور طبقے کا معیار زندگی بلند کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے 35 سال قبل چین اور ہندوستان ایک ساتھ کھڑے تھے لیکن آج چین اور ہندوستان کا موازنہ کر کے دیکھیں کیونکہ چین نے 70 کروڑ غریب لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کیا اور دنیا کا ماننا ہے کہ آج چین کو دنیا کی سب سے بڑے طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

عمران خان نے کہا کہ بھارت میں ایک چھوٹا طبقہ امیر سے امیر ترین ہو گیا لیکن وہاں غربت کی انتہا ہے تو اگر ہمیں اپنے غریب لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنا ہے تو سب سے پہلے کسانوں کی مدد کرنا پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو مشکل حالات تھے اور ہر طرح کے بحران آئے ہوئے تھے لیکن ہم نے پہلے ملک کو مستحکم کیا اور اب آہستہ آہستہ ترقی کررہا ہے، ملک کی شرح نمو 4 فیصد ہے اور اب اس کو مزید اوپر لے کر جانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کسان کے ’قتل‘ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر مسئلہ آ رہا ہے کہ ملک میں کتنے ڈالر آ رہے ہیں اور کتنے باہر جا رہے ہیں، یہ مسئلہ اس لیے آ رہا ہے لوگ مشینیں بیرون ملک سے منگوا رہے ہیں، ٹیکسٹائل کے لوگ مزید فیکٹریاں لگا رہے ہیں اور جب مشین منگواتے ہیں تو ڈالر ملک سے باہر جاتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جب تک ہم اپنے ملک میں زیادہ ڈالر نہیں لے آتے، اس وقت تک مسئلہ رہے گا، اسی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے کیونکہ ملک میں ڈالر کی کمی ہو جاتی ہے اور اس سال ہم نے ریکارڈ تعداد میں اناج اور اشیا باہر سے درآمد کی ہیں لہٰذا اگر ہم کسانوں کی مدد نہیں کریں گے تو تجارتی توازن خراب ہو جائے گا۔

خطاب سے قبل وزیر اعظم نے تقریب میں کسانوں میں کسان کارڈ بھی تقسیم کیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں