طالبان کو روکنے میں افغان حکومت کی ناکامی پر امریکی مایوسی بڑھنے لگی

اپ ڈیٹ 12 اگست 2021
امریکی حکام نے زور دیا کہ اگر صدر اشرف غنی اپنی حکومت کو متحد کر کے فیصلہ کن کام کریں تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
امریکی حکام نے زور دیا کہ اگر صدر اشرف غنی اپنی حکومت کو متحد کر کے فیصلہ کن کام کریں تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں افغان سیکیورٹی فورسز کی ناکامی نے امریکی عہدیداروں کو شدید مایوسی کا شکار کردیا ہے، جو دو دہائیوں تک ملکی فوج کی تربیت اور جدید آلات سے لیس کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر عہدیداروں نے بار بار افغان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ متحد ہو جائیں اور ایک واضح حکمت عملی وضع کریں کیونکہ خدشات ہیں کہ طالبان چند ماہ میں کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے 20 سالوں میں 10 کھرب ڈالر خرچ کیے، ہم نے افغان فورسز کے 3 لاکھ سے زائد اہلکاروں کو تربیت دی اور جدید آلات سے لیس کیا'۔

انہوں نے کہا کہ افغان رہنماؤں کو اکٹھا ہونا ہوگا، 'انہیں اپنے لیے لڑنا ہے، اپنی قوم کے لیے لڑنا ہے'۔

مزید پڑھیں: امن معاہدے کے لیے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے، طالبان

31 اگست کو امریکی انخلا کی تکمیل سے قبل پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے جو بائیڈن کے الفاظ کو دوہراتے ہوئے 2001 کے حملے کے بعد پہلی مرتبہ امریکا اور نیٹو کے فوجیوں کی عدم موجودگی میں طالبان کی پیش قدمیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ 'افغان فورسز کے پاس صلاحیت ہے، انہیں عددی فوائد حاصل ہیں، ان کے پاس فضائیہ ہے، یہ واقعی قیادت کی صلاحیتوں پر ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرنا چاہتے ہیں'۔

طالبان کی پیش قدمی پر حیرت کا اظہار

نجی طور پر امریکی حکام نے طالبان کی پیش قدمی کی رفتار پر حیرت کا اظہار کیا۔

امریکا نے گزشتہ دو ہفتوں سے افغان فورسز کی مدد کے لیے بمباری کی ہے لیکن طالبان نے ملک میں شمال کے کئی اہم شہروں پر آسانی سے قبضہ کر لیا ہے اور اب اسٹریٹجک طور پر اہم مزار شریف خطرے میں ہے۔

امریکی حکام نے زور دیا کہ اگر صدر اشرف غنی اپنی حکومت کو متحد کر کے فیصلہ کن کام کریں تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ 'افغان حکومت کے پاس زبردست فوائد ہیں، جن میں 3 لاکھ فوجی، فضائیہ، خصوصی فورسز، بھاری سازو سامان، تربیت اور امریکا کی حمایت شامل ہیں'۔

جنگجوؤں کی قوت

پینٹاگون کے سابق عہدیدار اور 'دی امریکن وار ان افغانستان' کے مصنف کارٹر ملکاشیان نے کہا کہ انتہائی قابل فوجی کمانڈر اور بہت سے قبائلی رہنما سیاسی وجوہات کی بنا پر کابل میں قیام کر رہے ہیں جبکہ انہیں فرنٹ لائن پر رہنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'انہیں حکومت اور دیگر بڑے رہنماؤں جیسے (سابق صدر) حامد کرزئی کی طرف سے کچھ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ وہاں سے نکلیں اور اپنی برادریوں کے لیے لڑیں'۔

امریکا یہ بھی مانتا ہے کہ اشرف غنی کو علاقائی قوتوں اور ان کی قبائلی بنیادوں پر قائم ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکا پر انحصار

ماہرین کے مطابق امریکی حکومت کا افغان افواج پر انگلی اٹھانا بھی کچھ حد تک ناپسندیدہ ہے۔

دفاعی ماہر انتھونی کورڈزمین نے کہا کہ امریکی عہدیداروں نے مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے اور جدید فوج کی تربیت میں گزشتہ 20 سالوں میں 'قومی تعمیر' کی کامیابیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

مزید پڑھیں: غزنی شہر پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان افغان دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے

انہوں نے واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے لیے ایک نئی رپورٹ میں لکھا کہ 'امریکا نے افغان حکومت کی گورننس، جنگ لڑنے اور مؤثر افغان سیکیورٹی فورسز بنانے میں پیش رفت کے بارے میں بہت زیادہ پرامید دعوے کیے تھے۔

یہاں تک کہ جب امریکی دور اپنے اختتام کے قریب ہے تو انہوں نے کہا کہ 'افغان فورسز عملی طور پر تمام کارروائیوں کے لیے امریکی مدد پر انحصار کر رہی ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں