سندھ ہائیکورٹ نے پیمرا کا لائسنس معطلی کا اختیار کالعدم قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 14 اگست 2021
درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے دلیل دی تھی کہ پیمرا پہلے قوانین بنائے بغیر آرڈیننس کے تحت اپنے اختیارات نہیں دے سکتا۔  - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز
درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے دلیل دی تھی کہ پیمرا پہلے قوانین بنائے بغیر آرڈیننس کے تحت اپنے اختیارات نہیں دے سکتا۔ - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نےحکم دیا ہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) آرڈیننس 2002 کے سیکشن 30 میں موجود براڈکاسٹ میڈیا لائسنس (بی ایم ایل) کو معطل کرنے کا اختیار قواعد و ضوابط کے بغیر اتھارٹی کے چیئرمین یا کسی عہدیدار کو نہیں دیا جاسکتا۔

عدالت نے اتھارٹی کے چیئرمین کی جانب سے اپریل 2020 میں لائسنسز کی معطلی کے لیے کیے گئے تمام اقدامات کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی جانب سے دائر درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئےکہا کہ عدالت نے پیمرا کے 156 ویں اجلاس کے ان منٹس کو کالعدم قرار دیا ہے جس کے تحت آرڈیننس کے سیکشن 13 کا استعمال کرتے ہوئے ریگولیٹر کے چیئرمین کو لائسنس کی معطلی کے لیے سیکشن 30 کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔

دو رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس محمد علی مظہر کی تحریر کردہ فیصلے نے ہائی کورٹ کے علاقائی دائرہ اختیار پر سوال اٹھانے والی درخواست کو برقرار رکھنے پر اٹھائے گئے اعتراض کو بھی مسترد کردیا۔

بینچ نے کہا کہ پی بی سی کے ممبران کے مفادات کی حفاظت کے لیے درخواست کو نمائندگی کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عدالتیں حکومت کو میڈیا پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دیں گی، اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالت نے کہا کہ اصل میں یہ درخواست پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 میں کی گئی ترامیم کی خلاف ورزیوں کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی ہے جو پورے بورڈ پر لاگو ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سندھ میں بھی قانونی چیلنجز کو چیلنج کیا جائے یہاں تک کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے کوئی رکاوٹ ہے، لہذا ہم نے اس اعتراض کو مسترد کیا اور پٹیشن کو اس عدالت میں قابل سماعت پایا’۔

پی بی اے نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007 کے سیکشن 7 کو پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 کے تحت ترمیم غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

درخواست گزار نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ یہ اعلان کیا جائے کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 کے تحت صوابدیدی اختیارات اس طرح کے صوابدیدی ڈھانچے کے لیے قوانین بنائے بغیر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

اس نے پیمرا کے 24 اپریل 2020 کو بلائے گئے 156 ویں اجلاس کے ایجنڈے کے آئٹم نمبر 5 سے متعلق فیصلے کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں اتھارٹی کے چیئرمین کو اختیارات دیئے گئے تھے کہ وہ براڈکاسٹ لائسنس معطل کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے نئے ٹی وی چینلز کے لائسنس کا اجرا روک دیا

درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے دلیل دی تھی کہ پیمرا پہلے قوانین بنائے بغیر آرڈیننس کے تحت اپنے اختیارات نہیں دے سکتا۔

انہوں نے استدلال کیا تھا کہ قواعد وضع کرنے کی ضرورت لازمی ہے اور یہ مسئلہ پیمرا کی طرف سے اس کے چیئرمین کو اختیارات کے اس مخصوص وفد تک محدود نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 کی تشریح سے متعلق ہے کہ قانون کے تحت اختیارات میں سے کوئی بھی قواعد وضع کیے بغیر اسے کیسے تفویض کیا جا سکتا ہے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 کو اس طرح پڑھا جانا چاہیے کہ آرڈیننس کے سیکشن 13 کے تحت کوئی اختیارات قواعد وضع کیے بغیر تفویض نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 میں لائسنسز کو معطل کرنے کا عدالتی اختیار اس طرح کے اختیارات کے اظہار کے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔

فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ پیمرا نے اپنی 156 ویں اجلاس میں پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 30 کے تحت اپنے چیئرمین کو لائسنس کی معطلی کی حد تک اختیارات تفویض کیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اختیارات کے ملنے کے فوراً بعد ہی پیمرا کے چیئرمین نے ان اختیارات کو مختصر وقت کے اندر تین بار استعمال کیا۔

پیمرا کے وکیل کاشف حنیف نے دلیل دی کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 29 (6) اور 30 دو آزاد سیکشنز ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے بول ٹی وی کا لائسنس بحال کر دیا

انہوں نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 8 (5) کی تعمیل لازمی نہیں ہے کیونکہ اس کی عدم تعمیل سے کوئی قابل سزا جرم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 13 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت اتھارٹی کو لائسنس کی معطلی کے حوالے سے اپنا اختیار سونپنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

کاشف حنیف نے کہا تھا کہ لائسنس کی معطلی کا اختیار عبوری قدم ہے تاکہ اتھارٹی کی ہدایات کی مزید خلاف ورزی کو روکا جاسکے یا جان بوجھ کر اور توہین آمیز مواد اور قانون کی خلاف ورزی کو روکا جاسکے۔

وکیل نے مزید کہا کہ معاملے پر آخر میں اتھارٹی کی طرف سے سنا اور فیصلہ کیا جائے گا جس کے لیے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 30 کے تحت اپیل کا حق فراہم کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں