لاہور: خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ، وزیراعظم کا آئی جی پنجاب سے رابطہ

اپ ڈیٹ 18 اگست 2021
—فوٹو:ٹوئٹر اسکرین گریب
—فوٹو:ٹوئٹر اسکرین گریب
پولیس نے مقدمہ درج کرلیا—فائل/فوٹو: اے پی
پولیس نے مقدمہ درج کرلیا—فائل/فوٹو: اے پی

لاہور میں یوم آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کو سیکڑوں افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے واقعے پر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لے لیا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب سے رابطہ کیا ہے۔

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے سمندرپار پاکستانی زلفی بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ ‘وزیراعظم عمران ان نے لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والے معاملے پر آئی جی پنجاب سے بات کی ہے’۔

مزید پڑھیں: لاہور: یوم آزادی پر خاتون کو ہراساں کرنے والے سیکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج

انہوں نے کہا کہ ‘پولیس خاتون ٹک ٹاکر سے بدتمیزی کرنے اور لاہور قلعے پر رنجیت سنگھ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے والے تمام ملزمان کو پکڑ رہی ہے’۔

زلفی بخاری نے کہا کہ ‘یہ قانون اور سماجی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حکومت اس میں ملوث کسی ایک شخص کو بھی نہیں چھوڑے گی’۔

قبل ازیں لاہور پولیس نے تھانہ لاری اڈہ واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر 6 ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں کہ 300 سے 400 لوگوں نے ان سب پر حملہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کی بہت کوشش کی اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے مینارِ پاکستان کے قریب واقع دروازہ کھول دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو بتایا گیا تھا لیکن حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگ ہماری طرف آرہے تھے، لوگ مجھے دھکا دے رہے تھے اور انہوں نے اس دوران میرے کپڑے تک پھاڑ دیے، کئی لوگوں نے میری مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا۔

شکایت کنندہ نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ان کے ساتھیوں پر بھی حملہ کیا گیا، اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی کا موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھین لیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم افراد نے ہم پر تشدد بھی کیا۔

مزید پڑھیں: لاہور: طالبات کو جنسی ہراساں کرنے والے استاد پر الزام ثابت

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی اور آج اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘خاتون سے دست درازی کے شرم ناک اور دل دہلا دینے والے واقعے میں ملوث تمام افراد کی نادرا اور ویڈیو فوٹیجز کے ذریعے نشان دہی کروائی جا رہی ہے’۔

عثمان بزدار نے کہا کہ ‘نادرا کا عملہ چھٹی کے دن بھی ان افراد کی شناخت کے عمل میں مصروف ہے، متاثرہ خاتون کو انصاف کی فراہمی کے لیے آخری حد تک جائیں گے’۔

وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی علامہ طاہر اشرفی نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران مذکورہ واقعے پر کہا کہ مینار پاکستان میں لڑکی کو ہراساں کرنے والے ملزمان نے ملک کی تصویر مسخ کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے ملزمان کو عبرت کا نشان بنایا جائے تو آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگا رہے ہیں، سی سی پی او

سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) غلام محمد ڈوگر نے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا میں واقعے کی گردش کرنے والی ویڈیوز کے ذریعے ملزمان کی شناخت کی جارہی ہے اور بڑی تعداد میں تصاویر اور ویڈیوز شناخت کے تعین کے لیے نادرا بھیجوا دی گئی ہیں۔

سی سی پی او نے 14 اگست کو پیش آنے والے واقعے کے ملزمان کی گرفتار کا حکم دیتے ہوئے بیان میں کہا تھا کہ ملزمان کو جلد ہی پکڑا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن افراد نے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی ہے، ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔

پولیس عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا تھا کہ سیف سٹی کیمروں، ڈی ایچ اے اور ٹک ٹاک کی کلپس حاصل کرلی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کم از کم 10 ملزمان کی شناخت ہوئی ہے، جنہیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا اور مزید ملزمان کی شناخت کی جائےگی۔

پاکستان میں خواتین کے احترام کا دعویٰ درست نہیں، عکس

عکس ریسرچ سینٹر اور پاکستانی ویمنز میڈیا نیٹ ورک (پی ڈبلیو ایم این) نے 14 اگست کو مینار پاکستان میں خاتون کے ساتھ ہونے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب قوم 75 واں یوم آزادی منا رہی تھیں تو 400 افراد ایک خاتون کو ہراساں کر رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘ہم ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے’۔

عکس اور پی ڈبلیو ایم این نے کہا کہ ہمیں پریشانی ہے کہ میڈیا کے چند اینکرز نے ایک مرتبہ پھر غیرذمہ داری کا ثبوت دیا اور مشفقانہ کردار ادار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خاتون کے گھر کا دورہ کیا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر تصاویر بنوائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ برائے مہربانی وہ متاثرہ خاتون کی پرائیویسی کا احترام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم حکومت کے تمام عہدیداروں، سیاست دانوں اور دیگر وہ افراد جو اپنا ان کے سر پر رکھ تصاویر کھنچوانے کی خواہش رکھتے ہیں، اس طرح کے رویے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر آپ مانتے ہیں کہ خواتین اس ملک کی برابر کی شہری ہیں تو پھر اس کا ثبوت مضبوط قانون سازی اور حفاظتی اقدامات سے دیں تاکہ خواتین کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور اپنی مرضی کے لباس میں خود کو محفوظ تصور کریں’۔

عکس اور پی ڈبلیو ایم این نے کہا کہ ‘پاکستان خواتین عوامی مقامات میں مختصر لباس میں نہیں جاتیں، وہ لباس اور معاشرے کے بارے میں جانتی ہیں لیکن یہ ان کا انتخاب ہونا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘مینار پاکستان میں پیش آنے والے واقعے کے ساتھ پاکستان خواتین کے محفوظ ترین جگہ ہے اور ہم خواتین ک احترام کرنا جانتے ہیں، جیسے دعوے کرنا سچائی نہیں ہے، اب وقت آگیا ہے کہ آپ عمل کریں اور اپنے دعووں کو ثابت کریں’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں