لاہور: یوم آزادی پر خاتون کو ہراساں کرنے والے سیکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
یوم آزادی کے موقع پر دوستوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنانے والی خاتون پر 300 سے 400 لوگوں نے حملہ کر دیا تھا— فوٹو: اے پی
یوم آزادی کے موقع پر دوستوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنانے والی خاتون پر 300 سے 400 لوگوں نے حملہ کر دیا تھا— فوٹو: اے پی

لاہور پولیس نے یوم آزادی کے موقع پر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر اور اس کے ساتھیوں پر حملہ اور چوری کرنے کے الزام میں سیکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں لاری اڈہ تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر 6 ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں کہ 300 سے 400 لوگوں نے ان سب پر حملہ کر دیا۔

مزید پڑھیں: لاہور: طالبات کو جنسی ہراساں کرنے والے استاد پر الزام ثابت

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کی بہت کوشش کی اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے مینار پاکستان کے قریب واقع دروازہ کھول دیا تھا۔

پولیس کا بتایا گیا کہ اس کے باوجود حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگ ہماری طرف آرہے تھے، لوگ مجھے دھکا دے رہے تھے اور انہوں نے اس دوران میرے کپڑے تک پھاڑ دیے، کئی لوگوں نے میری مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا۔

شکایت کنندہ نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ان کے ساتھیوں پر بھی حملہ کیا گیا، اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی کا موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھین لیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم افراد نے ہم پر تشدد بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: خاتون کو ‘قابل اعتراض مواد’ سے بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار

مذکورہ واقعے کی ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کی گئی ہے۔

دریں اثنا لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو حکم دیا کہ وہ واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف فوری قانونی کارروائی کریں۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ فوٹیج کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگایا جانا چاہیے اور جنہوں نے خاتون کی عزت پامال اور انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی، انہیں قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو آج صبح سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی جہاں ہجوم کے ردعمل پر عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

یہ مقدمہ ایک ایسے موقع پر درج کیا گیا ہے جب کچھ عرصہ قبل ہی نور مقدم اور قرۃ العین کے قتل کے واقعات کے بعد ملک میں خواتین پر تشدد کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی تھی۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کے پروفیسر کو خاتون استاد کو ہراساں کرنے پر 8 سال قید کی سزا

رواں ماہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں چھ افراد کو اسلام آباد میں ایک جوڑے کو ہراساں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا، ان افراد نے جوڑے کو اسلحے کے زور پر کپڑے اتارنے کے لیے مجبور کرتے ہوئے تشدد کیا اور نازیبا حرکات کے ذریعے جوڑے کی زبانی اور جسمانی طور پر تضحیک کی کوشش کی تھی۔

بعد ازاں چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور کے خلاف کیسز عدالت میں زیر سماعت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں