طالبان سے سیاسی مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں، کوئی رقم ساتھ نہیں لایا، اشرف غنی

اپ ڈیٹ 19 اگست 2021
اشرف غنی نے رقم ساتھ لے جانے کی تردید کردی—فوٹو: فیس بک اسکرین گریب
اشرف غنی نے رقم ساتھ لے جانے کی تردید کردی—فوٹو: فیس بک اسکرین گریب

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل چھوڑ کر خاموشی سے متحدہ عرب امارات پہنچنے والے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں اور صدارتی محل چھوڑتے وقت بڑی مقدار میں رقم ساتھ لے جانے کی رپورٹس مسترد کردیں۔

اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ ‘حکومت سازی کے لیے سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں اور اس عمل کی کامیابی چاہتا ہوں’۔

مزید پڑھیں: افغان صدر اشرف غنی کا انسانی بنیادوں پر استقبال کیا، امارات

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر میں وہی رک گیا ہوتاتو کابل میں خون ریزی ہوتی’۔

متحدہ عرب امارات میں موجود اشرف غنی کو سیاسی رہنما اور ان کے سفیر نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ طالبان کے جنگجووں کے کابل میں داخل ہوتے ہی وہ اچانک چلے گئے ہیں۔

دوسری جانب اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے حکومتی عہدیداروں کے مشورے پر ملک چھوڑا اور سیکیورٹی ٹیم نے باہر چلے جانے پر مجبور کیا کیونکہ میری گرفتاری اور قتل کرنے کے واضح امکانات تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب طالبان صدارتی محل میں داخل ہوئے تو وہاں مجھے تلاش کر رہے تھے، اس وقت میں متحدہ عرب امارات میں ہوں، خون ریزی اور افراتفری رک گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس وقت افغانستان واپسی کے لیے مذاکرات کر رہا ہوں کیونکہ کئی رہنما اس طرح واپس آچکے ہیں۔

تاجکستان میں تعینات سفیر کی جانب سے بھاری رقم لے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پہنی ہوئی چپل اتارنے اور دوسرے جوتے پہننے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں کابل اس لیے چھوڑا کیونکہ طالبان پیش قدمی کر رہے تھے اور ملک کے حالات خراب ہوتے جا رہے تھے۔

خیال رہے کہ 16 اگست کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکا تھا جبکہ طالبان قیادت نے اپنے جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اشرف غنی اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لے گئے؟

ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اشرف غنی تاجکستان چلے گئے ہیں تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے آن لائن ویڈیو بیان میں اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘وہ مشکل وقت میں افغانستان چھوڑ گئے ہیں، اللہ ان سے پوچھے گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی مشکل وقت میں ملک کو چھوڑ کر گئے ہیں، جس پر انہیں تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

افغانستان چھوڑ کر جانے کے بعد اپنے پہلے بیان میں اشرف غنی نے طالبان سے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ‘خون ریزی سے بچنے’ کے لیے ملک چھوڑ گئے ہیں کیونکہ طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے تھے۔

افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اگر وہ وہاں رک جاتے تو یقین تھا کہ ‘بے شمار محب وطن شہپد ہوتے اور کابل شہر تباہ ہوجاتا’۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘طالبان جیت چکے ہیں اور اب وہ اپنے ہم وطنوں کی عزت، املاک اور سلامتی کے ذمہ دار ہیں’۔

اشرف غنی نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کون سے ملک چلے گئے ہیں لیکن افغانستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ طلوع نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ وہ تاجکستان جا چکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے آج ایک بیان میں اشرف غنی کی آمد کی تصدیق کی۔

اماراتی وزارت خارجہ نے کہا کہ ‘وزارت خارجہ تصدیق کرتی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے صدر اشرف غنی اور ان کے خاندان کا انسانی بنیادوں پر ملک میں خیرمقدم کیا ہے’۔

دوسری جانب تاجکستان میں افغانستان کے سفارت خانے نے انٹرپول سے درخواست کی کہ اشرف غنی، حمداللہ محب اور فضل محمود فضلی کو گرفتار کرلیا جائے۔

مزید پڑھیں: ‘طالبان جیت چکے’، خون ریزی سے بچنے کیلئے افغانستان چھوڑ دیا، اشرف غنی

محمد ظاہر اغبار نے دوشنبے میں سفارت خانے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صدر اشرف غنی کی پرواز قوم اور ملک کے ساتھ دھوکا تھا، ‘اشرف غنی، حمداللہ محب اور فضل محمود فضلی کو سرکاری خزانہ لوٹنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے تاکہ فنڈ افغانستان کو واپس مل سکیں’۔

انہوں نے کہا کہ اشرف غنی جب اتوار کو ملک سے جارہے تھے تو تقریباً 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی رقم ساتھ لے گئے۔

تاجکستان میں افغانستان کے سفیر محمد ظاہر اغبار نے کہا کہ ‘آئین کے مطابق صدر کی غیرحاضری، ملک چھوڑ جانے یا موت کی صورت میں سینئر نائب صدر نگران بن جاتا ہے اور اس وقت امر اللہ صالح سرکاری طور پر قائم مقام صدر ہیں’۔

دوسری سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے طالبان کے وفد نے ملاقات کی۔

حامد کرزئی کے ترجمان نے کہا کہ انس حقانی سے ملاقات پارلیمانی ملاقات کا حصہ ہے، جو ممکنہ طور پر طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

ذیشان مشتاق Aug 19, 2021 11:55am
بالکل درست فیصلہ تھا۔ جو طالبان 1996 میں UN کمپاونڈ میں داخل ہو کے ڈاکٹر نجیب کو قتل کرسکتے تھے وہ صدارتی محل میں داخل ہو کے اشرف غنی کو بھی قتل کر سکتے تھے۔