افغانستان میں عوام، عالمی برادری کی قابل قبول حکومت قائم ہوگی، حکمت یار

اپ ڈیٹ 22 اگست 2021
گلبدین حکمت یار سے طالبان رہنما انس حقانی نے ملاقات بھی کی تھی—فائل/فوٹو: اے پی
گلبدین حکمت یار سے طالبان رہنما انس حقانی نے ملاقات بھی کی تھی—فائل/فوٹو: اے پی

افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عوام کو بغاوت پر اکسانے کی جانب اشارہ کرتےہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں جلد ایسی حکومت قائم ہوگی جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہوگی۔

ریڈیوپاکستان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں گلبدین حکمت یار نے کہا کہ یقین ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے افغان دھڑوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات آئندہ چند روز میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد شروع ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان وفد کی حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ سے ملاقات

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد کابل میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو افغانستان کے عوام اور عالمی برادری کے لیے قابل قبول ہوگی۔

گلبدین حکمت یار نے کہا کہ تمام فریقین کو اس بات کا احساس ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے افغان سیاسی رہنماؤں اور طالبان کو باضابطہ طور پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے غیر رسمی روابط جاری ہیں جو جلد باضابطہ مذاکرات میں تبدیل ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے بیانات میں یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی اسلامی امارات مسلط نہیں کرناچاہتے بلکہ تمام فریقین کی مشاورت سے ایک مخلوط حکومت کے قیام کو ترجیح دیں گے۔

حزب اسلامی کے سربراہ نے کہا ہے کہ امن دشمن افغانستان میں ایک مستحکم اور مضبوط مرکزی حکومت نہیں چاہتے، بعض غیرملکی خفیہ ادارے افغان عوام کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارت کو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بیانات جاری کرنے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا

گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ بھارت کو اپنے غیرقانون زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد کا بدلہ لینے کے لیے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے باز رہنا چاہیے۔

خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے 15 اگست کو کابل پر قبضے کے باوجود گلبدین حکمت یار اشرف غنی کی حکومت میں شامل ان رہنماؤں میں سے ہیں جو کابل میں موجود ہیں اور طالبان سے براہ راست رابطے میں ہیں۔

طالبان رہنما انس حقانی نے گلبدین حکمت یار سے دو روز قبل ملاقات کی تھی، اسی طرح سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سےبھی طالبان رہنما نے ملاقات کی تھی۔

افغان سیاسی رہنماؤں کی طالبان سے ملاقات کی تفصیلات میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں تاہم رپورٹس میں کہا گیا کہ حکومت سازی اور افغانستان میں امن برقرار رکھنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر اشرف غنی اور ملک کے سابق جنگجو سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) نے کہا تھا کہ حکومت جلد اقوام متحدہ کو خط لکھے گی جس میں حزب اسلامی کے سربراہ پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق افغان جنگجو گلبدین حکمت یار کا نام بلیک لسٹ سے خارج

بعد ازاں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے گلبدین حکمت یار پر عائد پابندی ہٹا دی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار کے اثاثے اب منجمد تصور نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں