سانحہ مہران ٹاؤن: فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عام کا مقدمہ درج، تحقیقات کا آغاز

اپ ڈیٹ 29 اگست 2021
تحقیقات کے لیے پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
تحقیقات کے لیے پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی: پولیس نے کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 16 افراد کی اموات کے سلسلے میں تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے تمام جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی کا اعلان کیا ہے۔

علاوہ ازیں ایڈمنسٹریٹر کراچی اور حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے تمام رہائشی پلاٹس کی فہرست طلب کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: کورنگی کی فیکٹری میں آتشزدگی، 16 افراد جاں بحق

ڈپٹی کمشنر کورنگی کی تیار کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ ہنگامی اخراج کا راستہ نہ ہونے اور عمارت کی تعمیر مناسب نہ ہونے کے باعث ورکرز دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔

عمارت اور فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عام کا مقدمہ

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) لانڈھی نواز چاچڑ نے بتایا کہ پولیس نے عمارت کے مالک فیصل، بی ایم لگیج فیکٹری کے مالک علی، منیجر عمران زیدی، سپروائزر ظفر اور ریحان اور چوکیدار سید زرین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پولیس افسر کے ذریعے ریاست کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 (قتل عام) اور دفعہ 34 (مشترکہ ارادے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 16 ہے اور مقدمے کے اندراج کے باوجود اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی۔

مزید پڑھیں: کراچی: لانڈھی ایکسپورٹ پروسسنگ زون کی فیکٹری میں آتشزدگی

ساتھ ہی ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ فرانزک ٹیم نے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ہلاکتیں عمارت کی بالائی منزل پر ہوئیں جہاں ہنگامی اخراج کا کوئی راستہ نہ تھا۔

عینی شاہدین اور علاقہ مکینوں نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے چوکیدار سے کہا تھا کہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے عمارت کی دوسری منزل کا تالا کھول دے۔

ایف آئی آر کے مطابق عمارت اس انداز میں تعمیر کی گئی تھی کہ ہنگامی صورتحال میں کوئی باہر نہیں جاسکتا تھا، نہ ہی کوئی ہنگامی الارم کا سسٹم موجود تھا۔

دوسری جانب جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے 3 افراد کو علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا جبکہ چوتھے زخمی کا مزید علاج جاری ہے۔

ہنگامی اخراج کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا، رپورٹ

ڈپٹی کمشنر کورنگی کی جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ ابتدائی تحقیقات اور بیانات کے مطابق مزدوروں کی ہلاکتیں ہنگامی اخراج کا راستہ نہ ہونے، عمارت کی تعمیر مناسب نہ ہونے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بلدیہ میں فیکٹری میں آتشزدگی سے 3 افراد جاں بحق

تحقیقات کے لیے پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی ہے۔

ساتھ ہی علاقے کے سروے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں جبکہ فیکٹری آئندہ احکامات تک کے لیے سیل کردی گئی ہے۔

فیکٹریوں کے معائنے کا حکم

دوسری جانب ایڈمنسٹریٹر کراچی نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے)، میونسپل کمشنر افضل زیدی، کے ایم سی کے چیف فائر افسر اور لیبر ڈپارٹمنت کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔

انہوں نے کے ڈی اے سربراہ کو ہدایت کی کہ مہران ٹاؤن میں رہائشی پلاٹوں کا صنعتی استعمال کرنے والوں کی فہرست فراہم کی جائے اور ایس بی سی اے کی اجازت کے بغیر قائم ہونے والء اس قسم کے یونٹس کا معائنہ کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ تمام ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنرز پر مشتمل معائنہ کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو فیکٹریوں میں آتشزدگی کی روک تھام کے اقدامات کا جائزہ لیں گی اور مناسب اقدامات نہ کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں