اب افغانستان میں امریکا اور طالبان ’مشترکہ مقصد‘ رکھتے ہیں، امریکی جنرل

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
امریکی افواج 2 دہائیوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد اب کابل سے نکلنے کے حتمی مرحلے میں ہیں ---فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی افواج 2 دہائیوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد اب کابل سے نکلنے کے حتمی مرحلے میں ہیں ---فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اب افغانستان میں امریکا اور طالبان ’مشترکہ مقصد‘ رکھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے حال ہی میں ایک بریفنگ میں کہا کہ ’ہم ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں‘ اور ’ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے میں فائدہ ہے‘۔

مزید پڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل

انہوں نے کہا کہ ’جب تک ہم نے اس مشترکہ مقصد سے جڑے رہے تو ان کے لیے کام کرنا مفید رہے گا‘۔

جنرل فرینک میک کینزی نے کہا کہ انہوں نے ہمارے کچھ سیکیورٹی خدشات کو ختم کر دیا ہے۔

پینٹاگون کی جانب سے ہفتے کی شام ڈرون حملے میں دہشت گرد تنظیم داعش کے دو ارکان کی ہلاکت ہوئی تھی جس پر صحافیوں نے ایک ترجمان سے پوچھا کہ کیا طالبان نے اس ڈرون حملے میں کوئی انٹیلی جنس یا کوئی مدد فراہم کی تھی؟

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’میں انٹیلی جنس کے معاملات کے بارے میں بات نہیں کروں گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو امریکا میں موجود اثاثوں تک رسائی نہیں ملے گی، امریکی حکام

جنرل میک کینزی سینٹ کام کے سربراہ کی حیثیت سے اب افغانستان کے ذمہ دار ہیں اور زیادہ واضح مؤقف رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی افواج اور طالبان کے مابین معاہدہ جس کے تحت ہم طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں تاکہ وہ ہماری حفاظت کریں۔

یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی افواج 2 دہائیوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد اب کابل سے نکلنے کے حتمی مرحلے میں ہیں اور فوجیوں کے انخلا سے قبل ایئرپورٹ پر صرف ایک ہزار سے کچھ زائد شہری موجود ہیں جنہیں وہاں سے باہر نکالنا ہے۔

ایئرپورٹ پر تعینات ایک عہدیدار نے کہا کہ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر غیر ملکی شہری جو خطرے میں ہے اسے نکال لیا جائے اور جب یہ عمل مکمل ہوجائے گا تو افواج بھی پرواز کر جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: خونریزی کے خدشے کے باوجود امریکا کا افغانستان سے انخلا پر زور

جب طالبان 15 اگست کو دارالحکومت میں داخل ہوئے تو مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اور افغان فوج ان کے سامنے کچھ دیر کے لیے بھی ٹک نہ سکیں اور ایک انتظامی خلا پیدا ہوگیا جس سے مالی تباہی اور وسیع بھوک کے خدشات کو تقویت ملی۔

امریکا کے ساتھ ہوئے ایک معاہدے کے تحت طالبان نے کہا تھا کہ وہ غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کو باہر جانے کی اجازت دیں گے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ 13 ہزار 500 افراد کو افغانستان سے باہر نکالا ہے لیکن ہزاروں اب بھی منتظر ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں