فلسطینی صدر اور اسرائیلی وزیر دفاع کے درمیان غیر معمولی بات چیت

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
ملاقات میں دفاعی اسٹیبلشمنٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مسائل پر توجہ دی گئی، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
ملاقات میں دفاعی اسٹیبلشمنٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مسائل پر توجہ دی گئی، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسرائیل کے وزیر دفاع نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ایک غیر معمولی اعلیٰ سطح کی ملاقات کی ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے رم اللہ میں محمود عباس سے ملاقات کی جو مبینہ طور پر اسرائیلی کابینہ کے رکن اور 86 سالہ فلسطینی رہنما کے درمیان کئی برسوں میں پہلی براہ راست بات چیت تھی۔

بینی گانٹز کے دفتر نے کہا کہ یہ ملاقات 'سیکیورٹی پالیسی، سویلین اور معاشی مسائل' پر مرکوز ہے۔

یہ ملاقات اسرائیلی وزیر دفاع کے واشنگٹن سے واپسی کے چند گھنٹوں کے بعد ہوئی، جہاں انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔

جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ بینیٹ گانٹز پر زور دیں گے کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی و خوشحالی کو آگے بڑھانے کے طریقے تلاش کریں۔

وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطین کے صدر کو بتایا کہ اسرائیل 'ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کررہا ہے جس سے پی اے (فلسطینی اتھارٹی) کی معیشت مضبوط ہو'۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مغربی کنارے اور غزہ میں سلامتی اور معاشی حالات کی تشکیل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

بینیٹ گانٹز کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ملاقات میں 'دفاعی اسٹیبلشمنٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مسائل' پر توجہ دی گئی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے کہا کہ 'فلسطینی عوام کے ساتھ نہ کوئی امن عمل جاری ہے اور نہ ہی ہو گا'۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟

دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں فلسطینی علاقوں میں شہری امور کے ذمہ دار اسرائیلی فوج کی ایک برانچ کے سربراہ غسان علیان، پی اے کے سینئر عہدیدار حسین الشیخ اور فلسطینی انٹیلی جنس کے سربراہ ماجد فراج بھی شامل تھے۔

اسرائیلی وزیر دفاع کے دفتر نے کہا کہ وسیع تر مذاکرات کے بعد انہوں نے اور محمود عباس نے 'ون آن ون ملاقات' بھی کی۔

حسین الشیخ نے ٹوئٹر پر ملاقات کی تصدیق کی تاہم پی اے فوری طور پر اس کے بارے میں رائے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے۔

حماس بمقابلہ محمود عباس

49 سالہ بینیٹ گانٹز نے جون میں ایک انتخابی اتحاد کے سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالا تھا جس میں ان کی جماعت کے پاس چند ہی نشستیں تھیں۔

وہ فلسطینی ریاست کے دیرینہ مخالف ہیں اور ایک کونسل کے سابق سربراہ ہیں جو مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے لابنگ کرتے ہیں، یہ علاقہ 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

تاہم بینیٹ گانٹز کے ذاتی خیالات کے باوجود ان کی حکومت نے پی اے کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جو سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دور میں ختم ہوگئے تھے۔

فلسطینی تقسیم

بینیٹ گانٹز کی حکومت نے حماس کے ساتھ ایک نئے تنازع پر تشویش کے درمیان پی اے کو بڑھانے کی خواہش کا اشارہ کیا ہے جو اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار غزہ کو کنٹرول کرتا ہے اور محمود عباس کی سیکولر فتح تحریک کا حریف ہے۔

رواں سال مئی میں غزہ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان 11 روزہ جھڑپ ہوئی تھی جو 2014 کے بعد سے اس علاقے میں بدترین جھڑپ تھی جس کے بعد مصر کی جنگ بندی کے باوجود بدامنی برقرار ہے۔

حماس نے محمود عباس اور بینیٹ گانٹز کی ملاقات کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ فلسطینی سیاسی تقسیم کو گہرا کرتی ہے۔

محمود عباس نے 2006 میں اپنے انتخاب کے بعد سے پی اے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وہ عوامل جنہوں نے اسرائیل کو ’ظلم‘ جاری رکھنے کا حوصلہ دیا!

انہوں نے مئی اور جولائی میں ہونے والے انتخابات کو منسوخ بھی کر دیا جو 15 سالوں میں فلسطین کے پہلے انتخابات تھے۔

انہوں نے اس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں ووٹنگ کی اجازت دینے سے انکار کو ٹھہرایا جسے فلسطینی اپنا مستقبل کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔

تاہم چند فلسطینی ماہرین کا کہنا تھا کہ محمود عباس نے اسے اس لیے منسوخ کیا کیونکہ حماس انتخابات میں انہیں شکست دینے کے لیے تیار تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں