فوجی قیادت کی جی ایچ کیو میں پارلیمانی کمیٹیوں کو سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آج چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آج چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے اراکین نے جنرل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جس میں ملک کی فوجی قیادت نے داخلی و خارجی سیکیورٹی صورت حال بشمول کشمیر پر بریفنگ دی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر پر مشتمل ایک وفد نے آج جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔

مزید پڑھیں: فوجی قیادت اپنی پوزیشن واضح کرے کیا اس نااہل حکومت کی پشت پر ہے، مولانافضل الرحمٰن

وفد کو سیکیورٹی ماحول سمیت سرحدوں کی صورت حال اور امن و استحکام کے لیے پاک فوج کی کوششوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جبکہ وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایک مکمل انٹرایکٹو سیشن میں بھی شرکت کی۔

آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے قوم کے تعاون سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ملک میں حالات معمول پر لانے میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی زون کی بارڈر مینجمنٹ کے لیے ہمارے بروقت اقدامات کی وجہ سے آج چیلنجز کے باوجود پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقائی روابط کے فوائد کے علاوہ خطے کی پائیدار ترقی کے لیے افغانستان میں امن کی بحالی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’فوجی قیادت کانام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا، نام سنے تو دھچکا لگا‘

انہوں نے مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کے لیے پاک فوج کی حمایت اور عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے بغیر امن اور استحکام ایک فریب ہی رہے گا۔

سیشن کا اختتام پر اس بات کا عزم ظاہر کیا گیا کہ پوری قوم کے نقطہ نظر کے ذریعے پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف پوری قوم ہم آہنگ ہو کر جنگ جاری رکھے گی۔

پارلیمانی کمیٹیوں کو بریفنگ پر سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے مطالبہ کیا تھا کہ جی ایچ کیو کے بجائے بریفنگ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونی چاہیے تھی۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو اس طرح کی ایک بریفنگ یکم جولائی کو پارلیمنٹ ہاؤس میں دی گئی تھی جو فوجی اور انٹیلیجنس رہنماؤں نے قومی مفاد کے معاملات پر تقسیمی سیاست دور کرنے کے لیے بلائی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اسٹریٹجک چیلنجز اور خارجہ تعلقات میں متعلقہ پالیسی کی تبدیلی ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی قیادت کا بھارت کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے عزم کا اظہار

گزشتہ بریفنگ انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے پارلیمانی رہنماؤں بشمول قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو علاقائی ماحول اور ممکنہ خطرات، غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ابھرتی ہوئی صورتحال اور امن مذاکرات میں جمود، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی پیش رفت اور چین کو روکنے کی امریکی کوششوں پر دی گئی تھی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اجلاس میں شرکت کی تھی اور پارلیمینٹیرینز کے سوالات کے جوابات دیے تھے۔

سیاسی قیادت کو بتایا گیا تھا کہ صورتحال کے پیشِ نظر قومی مفاد کے امور پر اتفاق رائے برقرار رکھنا ضروری ہے اور سیاست کو گورننس اور اس سے متعلق سیاسی معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔

خیال رہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اپوزیشن جماعتیں حکومت سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے اور اسے علاقائی صورتحال بریفنگ دینے اور ان چیلنجز پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا مطالبہ کررہی تھیں جن کا ملک کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوج کا تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کا مطالبہ

تینوں کمیٹیوں کے اہم اراکین میں سینیٹ کے قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ پی ٹی آئی کے فیصل جاوید، محسن عزیز، میجر (ر) طاہر صدیق جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ، خرم دستگیر، شیخ روحیل اصغر، برجیس طاہر اور ریاض حسین پیر زادہ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف، شیری رحمٰن اور آفتاب شعبان میرانی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں