ریپ کیسز کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل منظور

01 ستمبر 2021
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بل منظور کیا— فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بل منظور کیا— فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے انسداد ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹریل) بل 2021 کی منظوری دے دی جس کے تحت ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔

قومی اسمبلی نے 10 جون کو بل منظور کیا تھا جسے بعد میں منظوری کے لیے سینیٹ بھیجا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے انسداد ریپ آرڈیننس کی باضابطہ منظوری دے دی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سید علی ظفر ہیں جبکہ دیگر اراکین میں اعظم نذیر تارڑ، فاروق حامد نائیک، کامران مرتضیٰ، میاں رضا ربانی، محمد اعظم خان سواتی، محمد ہمایوں مہمند، مصدق مسعود ملک، مصطفیٰ نواز کھوکھر، ثمینہ ممتاز زہری، سید مظفر حسین شاہ، سید شبلی فراز اور ولید اقبال شامل ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کے اراکین نے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کی اجازت دینے والی ایک شق پر تحفظات کا اظہار کیا تاہم اجلاس کے دوران اکثریت ووٹوں سے ان تحفظات کو مسترد کر دیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ذیلی کمیٹی کے رکن مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ممکنہ خصوصی عدالتیں چار ماہ کے اندر کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔

قانون میں دفعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مشتبہ شخص ہائی کورٹ سے رجوع کرتا ہے تو اسے چھ ماہ میں اس کیس کا فیصلہ کرنا ہوگا اور اس دوران ملزم کو ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل

اس بل کو منظوری کے لیے اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

اس سے قبل اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی ملائیکا بخاری نے پینل کو بل میں ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے تجویز سے آگاہ کیا۔

پینل کو یہ بھی بتایا گیا کہ عدالتوں میں ریٹائرڈ ججوں کے بجائے حاضر سروس جج ہوں گے۔

پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل ضروری نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم قوانین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ خصوصی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا منصوبہ تاخیر کا شکار

مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی ہی عدالتیں قائم کی گئی تھیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

تقریباً اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ عدالتی نظام پر جمود طاری ہے اور اور بچوں اور خواتین کے لیے خصوصی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ کو خصوصی عدالتوں کی کارکردگی پر نظر رکھنی چاہیے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو مقننہ قانون میں تبدیلیاں کر سکتی ہے۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ اگر اس قانون میں پارلیمنٹ کی نگرانی کے اختیارات کی شق شامل کی جائے تو اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کو کسی بھی مسئلے کا نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے۔

ذیلی کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اگر اس سے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کی شرط ختم کردی گئی تو بل کا وجود ختم ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ریپ کیسز کیلئے سیشن کورٹس کو خصوصی عدالتوں کا درجہ دے دیا گیا

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ذیلی کمیٹی نے اس بل کی منظوری دی ہے جس میں کنوارے پن کے ٹیسٹ کی شرط ختم کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملزم مجرم ثابت ہوا تو اسے سزائے موت، عمر قید یا کیمیائی طریقے سے نامرد کیے جانے کے عمل سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔

سینیٹر نے کہا کہ اگر تفتیشی اہلکار غفلت کا مرتکب قرار پائے گئے یا کسی بھی حیثیت میں مقدمے کی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تو انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے۔

پچھلے سال دسمبر میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کی منظوری دی تھی تاکہ خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات کی جلد سماعت کو یقینی بنایا جا سکے اور ایسے جرائم میں سزا یافتہ افراد کو کیمیائی طریقے سے نامرد بنانے کی اجازت دی جا سکے۔

ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ آرڈیننس کے تحت جنسی زیادتی کے ملزمان کے فوری ٹرائل کے لیے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی اور ان عدالتوں کو چار مہینوں میں مقدمات ختم کرنے ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں