جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے دوبارہ حکومتی نظرثانی کی درخواست کی نقل مانگ لی

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2021
انہوں نے کہا کہ ’مجھے ایک کاپی کیوں نہیں دی جاتی‘۔ 
----فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ ’مجھے ایک کاپی کیوں نہیں دی جاتی‘۔ ----فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: ایک اور خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے حکومت سے پھر مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس سے متعلق درخواست کی نقل فراہم کرے جو 26 اپریل کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریت کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2 ستمبر کو ایک خط میں وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے سرینا عیسیٰ نے کہا کہ انہیں میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں کچھ فائل کیا گیا ہے اور یہ بات ان سے خفیہ رکھی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سرینا عیسیٰ، نظرثانی درخواست سے تین ججوں کے اخراج کی مخالف

انہوں نے کہا کہ ’مجھے ایک نقل کیوں نہیں دی جاتی‘۔

سرینا عیسیٰ نے حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت نے واقعی قواعد پر عمل نہیں کیا۔

اپنے 27 مئی کے خط کے ذریعے انہوں نے کہا کہ دائر کردہ درخواست کی ایک نقل مانگی تھی جو مبینہ طور پر ان کے خلاف درج کی گئی ہے لیکن حکومت نے اسے فراہم نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے سامنے ان کی نظرثانی کی درخواست کے فیصلے کے 30 دن بعد داخل کی گئی ہے۔

سرینا عیسیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین نے نظرثانی پٹیشن کے فیصلے پر مزید نظرثانی کی اجازت نہیں دی، اس نے ازخود نوٹس کے لیے دی جانے والی درخواست کی اجازت نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

انہوں نے وضاحت کی کہ نظر ثانی کی درخواست پر فیصلے سے معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔

تاہم انہوں نے وزیر اعظم کو لکھے گئے اپنے خط میں الزام لگایا کہ جس نے آمروں کی خدمت کی، قانون کے خلاف اقدام کیا، وفاداری خریدی اور آئین کی توہین کی وہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے کھلا خط لکھ رہی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ وہ علاج معالج کے لیے پاکستان سے باہر ہیں تو ان کے خلاف از خود نوٹس کے لیے دی جانے والی درخواست پر کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔

کیوریٹیو ریویو پٹیشن دائر کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جسٹس عیسیٰ نظرثانی کیس میں اس کے 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے کو عوامی مفاد اور عوامی بھلائی کے خلاف بلاجواز نہ چھوڑا جائے۔

عدالت عظمیٰ کے 6 ججز جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس امین الدین خان، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے نظرثانی کی درخواست منظور کی تھی۔

مزید پڑھیں: سرینا عیسٰی کا ساڑھے 3 کروڑ روپے ٹیکس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار

سپریم کورٹ کا 10 رکنی بینچ جون 2020 کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کر رہا تھا، صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کے خلاف انکوائری کی اجازت دی گئی تھی۔

عدالت نے ایف بی آر اور دیگر اداروں کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف اثاثوں کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کو 'غیر قانونی' قرار دے دیا۔

حکومت نے اپنی نظرثانی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عام طور پر عدالتی احتساب کے دروازے کافی حد تک بند کر دیے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں