بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ کے لیے کووڈ ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت اتنی زیادہ ہے کہ اس وقت کورونا کی وبا کے لیے بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہیں۔

یہ بات بین الاقوامی طبی ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ میں سامنے آئی۔

ماہرین کی اس ٹیم میں عالمی ادارہ صحت اور امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ماہرین بھی شامل تھے۔

یہ رپورٹ طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئی جس میں کنٹرول ٹرائلز اور تحقیقی رپورٹس میں دستیاب شواہد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

تحقیقی رپورٹس میں مسلسل یہ بات سامنے آئی کہ ویکسینز سے کووڈ کی سنگین شدت کے خلاف ملنے والے ٹھوس تحفظ کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔

ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے ڈیلٹا اور ایلفا جیسی کورونا کی اقسام سے بیمار ہونے پر سنگین پیچیدگیوں سے 95 فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ بیمار ہونے سے بچانے کے لیے ویکسینز کی افادیت 80 فیصد ہے۔

مجموعی طور پر بیماری کی معمولی شدت کے مقابلے میں سنگین شدت کے خلاف ویکسینز سے بہت زیادہ تحفظ ملتا ہے۔

اگرچہ بغیر علامات والی بیماری سے بچانے یا وائرس کے آگے پھیلاؤ کے خلاف ویکسینز کی افادیت بیماری کی سنگین شدت کے مقابلے میں کچھ کم نظر آتی ہے، مگر وائرس کے پھیلاؤ میں ویکسینیشن نہ کرانے والے ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ٹیم میں شامل ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار ڈاکٹر اینا ماریہ ہیناؤ ریسٹریپو نے بتایا کہ اس وقت دستیاب تحقیقی رپورٹس میں ایسے قابل اعتبار شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے بیماری کی سنگین شدت کے خلاف ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی ثابت ہوئی ہو، جو کہ ویکسینیشن کا بنیادی مقصد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ویکسینز کی محدود سپلائی سے ایسی متعدد زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے جن میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اگرچہ بوسٹر ڈوز سے کچھ فائدہ ضرورت ہوسکتا ہے مگر اس کے مقابلے میں وہ فوائد زیادہ ہیں جو ویکسین سے دور افراد کو ابتدائی تحفظ فراہم کرکے حاصل ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ویکسینز ان جگہوں پر فراہم کی جائے جہاں بیماری پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہے تو وبا کے خاتمے کا راستہ کھل سکتا ہے جس سے وائرس کے مزید ارتقا کی روک تھام بھی ہوسکے گی۔

محققین نے یہ بھی بتایا کہ اگر ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی بھی آتی ہے تو ضروری نہیں کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خلاف ویکسینز کی افادیت میں کمی آسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری کی سنگین شدت کے خلاف تحفظ صرف اینٹی باڈی ردعمل سے ہی نہیں ملتا بلکہ میموری ردعمل اور خلیاتی مدافعت بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے۔

ماہرین نے مزید بتایا کہ ویکسینیشن کی شرح بڑھنے سے بغیر ویکسین والے لوگوں کی تعداد کم ہوگی ، جس سے بریک تھرو انفیکشن کیسز تو بڑھ جائیں گے مگر سنگین بیماری سے تحفظ برقرار رہے گا، کیونکہ ابھی وائرس کی اقسام ایسی نہیں جو میموری مدافعتی ردعمل سے بھی بچ سکیں۔

ان ماہرین میں شامل ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے بتایا کہ اس وقت دستیاب ویکسینز محفوظ، مؤثر اور زندگیاں بچا رہی ہیں، اگرچہ تیسری خوراک سے ویکسینیشن کرانے والے لوگوں کی مدافعت کو بڑھانے کا خیال اچھا لگتا ہے کہ مگر اس حوالے سے فیصلہ شواہد کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں