امریکا نے افغانستان میں 20 برس کے دوران یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
امریکا نے افغانستان میں گزشتہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے—فائل فوٹو: رائٹرز
امریکا نے افغانستان میں گزشتہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: براؤن یونیورسٹی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں 7 ہزار 300 دنوں پر مشتمل 20 سالہ جنگ اور قومی ترقی کے نام پر یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے افغانستان میں گزشتہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ اختتام پذیر، طالبان کا جشن

امریکی میڈیا کے کئی بڑے اداروں نے اس رپورٹ کو نمایاں حیثیت دی ہے جس میں کہا گیا کہ اس رقم سے ’مختصر تعداد پر مشتمل نوجوان، انتہائی امیر افغانی بن گئے‘، ان میں سے بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور اور کروڑ پتی بن گئے۔

ایک امریکی نیوز چینل سی این بی سی نے یونیورسٹی کے نتائج پر اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’کنٹریکٹرز کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر اس کی نازک جمہوریت کو تباہ کر دیا‘۔

سی این بی سی نے کہا کہ امریکا نے افغانستان کی تعمیر نو میں یہ تمام کوششیں کیں پھر بھی طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے، فوج کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف 9 دن لگے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ

پینٹاگون واچ ڈاگ سیگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں دو مرتبہ امریکی سفیر رہنے والے ریان کروکر نے نائن الیون کے بعد کی کرپشن کو امریکا کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں کی ناکامی کا واضح پہلو شورش نہیں بلکہ مقامی بدعنوانی کا وزن تھا‘۔

کئی کروڑ پتی افغان باشندوں میں بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کے طور پر کام شروع کیا اور اپنی وفاداری کی وجہ سے وہ دفاعی معاہدوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ان میں سے ایک کابل میں انگریزی کے استاد فہیم ہاشمی تھے جنہیں امریکی فوج نے بطور مترجم اپنے ساتھ شامل کیا۔

مزید پڑھیں: کابل ایئرپورٹ میں امریکی فوج کی فائرنگ سے 3 افغان شہری جاں بحق

بعد میں فہیم ہاشمی نے ایک کمپنی قائم کی جو فوجی اڈوں کو سامان اور ایندھن فراہم کرتی تھی۔

ندیم ہاشمی گزشتہ ماہ کابل حکومت کے خاتمے کے لیے بدعنوانی کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہیں شرماتے۔

انہوں نے 2013 میں یو ایس نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، میرے خیال میں بدعنوانی نہ صرف کاروبار پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق عدم تحفظ سے بھی ہے۔

اسی طرح حکمت اللہ شادمان بھی امریکی فوج کے مترجم تھے، 2007 میں 5 برس بطور ترجم کام کرنے کے بعد انہوں نے ایک ایک ٹرک کرائے پر لیا اور امریکی اڈے کو ایندھن اور سامان کی فراہمی شروع کی۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان میں امن اب بھی قابل حصول ہے، پاکستان کی امریکا کو یقین دہانی

2009 میں ان کی کمپنی نے محکمہ دفاع کو 4 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا بل دیا۔

اسی طرح 2007 اور 2012 کے درمیان ان کی ٹرکنگ کمپنی نے امریکی حکومت کے معاہدوں سے 16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر وصول کیے۔

2012 میں امریکی محکمہ انصاف نے حکمت اللہ پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی فوجیوں اور افغان حکومت کے عہدیداروں کو معاہدوں کے عوض رشوت ادا کرتے رہے۔

ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے پینٹاگون سے اپنے کام کی مد میں غیرمعمولی زائد وصولیاں کیں۔

2014 میں نیدرلینڈز میں قائم سپریم گروپ نے دھوکا دہی کے الزامات کا اعتراف کیا اور 38 کروڑ 90 لاکھ ڈالر جرمانے اور ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند ہو گیا جو اس وقت دفاعی ٹھیکیدار پر عائد سب سے بڑی سزا میں سے ایک تھی۔

لیکن رواں ہفتے کے آخر میں شائع ہونے والی بیشتر رپورٹوں میں کہا گیا کہ افغانستان میں ٹھیکے تفویض کرنے کے عمل میں ہونے والی کرپشن اور دھوکا دہی کے بارے میں کچھ رپورٹ نہیں ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں