'طالبان حکومت انسانی حقوق کے وعدے پورے کرے تو ہی پاکستان انہیں تسلیم کرے گا'

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
امرکا میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ خدشات کے برعکس مزید افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے— فائل فوٹو: انادولو ایجنسی
امرکا میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ خدشات کے برعکس مزید افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے— فائل فوٹو: انادولو ایجنسی

واشنگٹن: امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان بھی انہیں تسلیم کرنے سے قبل عالمی برادری سے انسانی حقوق کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے دی واشنگٹن ڈپلومیٹ کو انٹرویو میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ طالبان اب ان وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے زیادہ یمن اور عراق سے دہشت گردی کا خطرہ ہے، امریکی عہدیدار

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے، ہمارا تسلسل کے ساتھ یہ موقف رہا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں بلکہ اس ضمن میں سیاسی بات چیت درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا سے امن عمل میں پیش رفت ہوگی اور اسی وجہ سے پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کی اور اس حوالے سے اہم پیش رفت بھی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال کنٹرول میں ہے، طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے اور کسی طرح کی انتقامی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوئے اور خدشات کے برعکس مزید افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطے میں رہا جائے یا نہیں مگر اس کا مطلب انہیں لازماً تسلیم کرنا نہیں، ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور کسی اور ملک نے بھی ابھی تک طالبان کو باقاعدہ طور تسلیم نہیں کیا بلکہ ہم طالبان کی جانب سے عالمی برادری کی تشویش دور اور ان کے وعدوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'افغانستان کے مستقبل کے تناظر میں امریکا، پاکستان سے تعلقات کا جائزہ لے گا'

انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے توقع کرتے ہیں کہ ہر فرد کے حقوق کا احترام کیا جائے اور یہ چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانی بحران سے بچا جائے۔

دو دہائی قبل امریکا پر بدترین دہشت گردی کے حملوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری دلی ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بھی بڑا نقصان ہوا، اس جنگ میں ہماری 80 ہزار سے زیادہ جانیں گئیں جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم خود دہشت گردی کا نشانہ بنے، اس لیے متاثرین کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، ہمیں امریکی عوام کی مشکلات کا ادراک ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے عوام کو دوبارہ ایسا دن نہ دیکھنا پڑے، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مزید پڑھیں: حقوق کی پاسداری طالبان کیلئے معاشی دباؤ کم کرسکتی ہے، وزیر خارجہ

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے سوال پر سفیر نے کہا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ بڑے اہم رہے ہیں، نائن الیون کے بعد سے ہم افغانستان کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتھ رہے ہیں اور پاکستان القاعدہ کے خاتمے کے لیے قریبی اتحادی ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اپنے مفادات اور توقعات کے حوالے سے ہم مشترکہ مؤقف رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ چند عشروں سے حاصل ہونے والے فوائد کا تحفظ کیا جائے۔

پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت میں ایک انتہا پسند حکومت ہے جس نے ہماری تمام امن کوششوں کو رد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کھلے عام دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے فوجی مہم جوئی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں مشکلات اور مظالم میں اضافہ ہوا۔

اسد مجید خان نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام تنازعات، روابط اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے پاس امن کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں 20 برس کے دوران یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے

پاک چین تعلقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہیں، اسی طرح امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، امریکا، پاکستانی برآمدات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے جو پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر سالانہ کی ترسیلات زر کے ساتھ تیسرا بڑا ملک ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وال اسٹریٹ کے صحافی ڈینیئل پرل کا قتل ایک سنگین جرم تھا، میں نے ان کے سوگوار خاندان سے ذاتی طور پر اظہار تعزیت کی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی مائیں اپنے بیٹوں سے محروم ہوئیں، ہمیں جانی نقصان پر افسوس ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں