حقوق کی پاسداری طالبان کیلئے معاشی دباؤ کم کرسکتی ہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی پاسداری ان پر معاشی دباؤ کی کمی سے منسلک ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں انسانی فلاحی صورتحال پر بلائی گئی اقوامِ متحدہ کی کانفرنس کے دوران ویڈیو پیغام میں وزیر خارجہ نے کہا کہ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے کے لیے افغانستان میں سیاسی استحکام اور امن کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن اس وقت تک پائیدار نہیں رہ سکتا جب تک افغانستان کو ضروری معاشی اور مالی گنجائش نہ فراہم کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا 13 ستمبر کو ’افغانستان امداد کانفرنس‘ بلانے کا فیصلہ

طالبان کے قبضے کے بعد اچانک غیر ملکی عطیہ دہندگان کی جانب سے امداد ختم کرنے کے بعد افغانستان کو معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی بحران کا سامنا ہے۔

افغانستان کی معیشت طویل عرصے سے غیر ملکی امداد پر انحصار کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق مغربی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت ختم ہونے سے قبل اس کا سالانہ 80 فیصد بجٹ امریکا اور بین الاقوامی عطیات دہندگان فراہم کرتے تھے۔

کابل میں تبدیلی کے فوراً بعد امریکا نے طالبان حکومت میں انسانی حقوق کے خدشات اور افغانستان میں موجود دہشت گردو گروہوں کی جانب سے عالمی امن و سلامتی کے خطرے کے پیشِ نظر اپنے بینک میں موجود افغانستان کے تقریباً 9 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے تھے۔

اسی کی پیروی کرتے ہوئے عالمی قرض دہندہ اداروں، عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی اپنے زیر انتظام فنڈز تک طالبان کی رسائی بلاک کردی تھی۔

مزید پڑھیں: طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی جی ڈی پی 20 فیصد گرنے کا امکان

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا طالبان کے حوالے سے مزید شکوک و شبہات کا شکار ہوتی جارہی ہے کیوں کہ وہ جامع حکومت، خواتین کے حقوق کے تحفظ اور مخالفین کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

تاہم پاکستان، دنیا سے پُرزور درخواستیں کر رہا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ رابطے کریں، افغان اثاثوں کو غیر منجمد کریں اور معاشی مدد فراہم کریں۔

افغانستان کے لیے 60 کروڑ 6 لاکھ ڈالر کے عطیات اکٹھا کرنے کے لیے بلائی گئی ڈونر کانفرنس میں وزیر خارجہ نے کہا کہ اس اہم موڑ پر افغان عوام کے ساتھ مالی اور سیاسی مدد دونوں کے لحاظ سے یکجہتی دکھائی جانی چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ ترقیاتی شراکت داری کی تجدید کی جائے، قوم کی تعمیر کی حمایت کی جائے اور افغان آبادی کی انسانی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

صورتحال کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ مشکلات خوفناک ہیں، افغانستان کے تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کے لیے صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے اور انہیں براہ راست انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو ایک موقع دینا چاہیے شاید وہ بدل گئے ہوں، سربراہ برطانوی فوج

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے سست ردعمل سنگین انسانی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کے لوگوں کی خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ معاشی بحران لاکھوں افغانوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی متاثر کر رہا ہے، مزید یہ کہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے طالبان کے قبضے سے قبل افغانستان کے نظام صحت اور تعلیم میں اہم کردار ادا کیا جنہیں اپنی خدمات جاری رکھنے کے لیے محفوظ ماحول درکار ہے۔

ساتھ ہی وزیر خارجہ نے دنیا پر زور دیا کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کو فراموش نہ کرے جو اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Salman Khalid Sep 14, 2021 01:40pm
A very well written and good informative article on the present situation in Afghanistan elaborately explaining the possibilities of positive and negative aspects about the reactions from the neighborhood countries as also the invaders of the past. I think there is consensus in majority of the countries that policy of Taliban have undergone a lot of changes as compared to their government 20 years ago. The world should respond to this development positively.