نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، 15 ماہ بعد شرح سود میں اضافہ

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2021
پالیسی ریٹ 25 بیس پوائنٹس اضافے کے بعد 7.25فیصد کردیا گیا ہے— السٹریشن: ڈان
پالیسی ریٹ 25 بیس پوائنٹس اضافے کے بعد 7.25فیصد کردیا گیا ہے— السٹریشن: ڈان

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے، 15 ماہ بعد پالیسی ریٹ 25 بیس پوائنٹس اضافے کے بعد 7.25 فیصد کردیا گیا ہے۔

20 ستمبر 2021 کے زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں پالیسی ریٹ میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ معاشی بحالی کی رفتار توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 7 فیصد پر برقرار

کمیٹی نے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ جون سے سالانہ مہنگائی کم ہوئی لیکن بلند درآمدات سے متعلق مہنگائی کے ساتھ بڑھتا ہوا طلبی دباؤ مالی سال میں آگے چل کر مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہونا شروع ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کووڈ-19 کی تازہ ترین لہر قابو میں ہے، ویکسی نیشن کی بدولت حکومت نے وبا کو مجموعی طور پر قابو میں رکھا ہے تو معاشی بحالی وبا سے متعلق غیر یقینی کیفیت کا اتنا زیادہ شکار معلوم نہیں ہوتی۔

زری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کووڈ کے دھچکے کے بعد یہ ضروری تھا کہ بحالی کو تحریک دینے کے محور سے ہٹا جائے اور اسے پائیدار بنایا جائے لہٰذا گزشتہ ماہ کے دوران دی گئی خاصی زری پالیسی کو بتدریج گھٹانا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقی شرح سود مستقل بنیادوں پر منفی رہی ہے اور ممکنہ طور پر مالیاتی اعانت بتدریج سکڑے گی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ معتدل حقیقی شرح سود کو حاصل کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 13.25 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں کہا گیا کہ گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت، سیمنٹ کی فروخت اور بجلی کی پیداوار جیسے زیادہ بلند تعداد والے ملکی طلب کے اشاریے مسلسل مضبوط نمو کے عکاس ہیں اور اس نمو کی عکاسی درآمدات اور ٹیکس وصولیوں کی مضبوطی سے ہوتی ہے۔

زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ ان رجحانات کی بنیاد پر اُمید ہے کہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال کے اثرات کے لحاظ سے موجود انتہائی غیر یقینی کیفیت سے قطع نظر مالی سال 22 میں شرح نمو 4 تا 5 فیصد پیش گوئی کی بالائی حد میں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ جاری کھاتے کا خسارہ جولائی میں بڑھ کر 0.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.5 ارب ڈالر ہو گیا جس سے شدید ملکی طلب اور اجناس کی بلند عالمی قیمتوں، دونوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق ترسیلات زر مستحکم رہیں اور جولائی سے اگست کے دوران سالانہ 10.4 فیصد بڑھیں جبکہ برآمدات نے بھی اوسطاً 2.3 ارب ڈالر کے ساتھ مناسب حد تک عمدہ کارکردگی دکھائی البتہ درآمدات نے انہیں بے اثر کردیا۔

مزید پڑھیں: وزارت خزانہ کا عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں بڑھنے پر اظہارِ تشویش

انہوں نے کہا کہ ان عوامل کے باعث مانیٹری پالیسی کمیٹی کے سابقہ اجلاس کے بعد روپے کی قدر گری ہے لیکن حال ہی میں دوسری بہت سی کرنسیوں کی قدر بھی گری ہے کیونکہ فیڈرل ریزرو کی طرف سے تخفیف کی توقعات سامنے آئی ہیں۔

زری پالیسی کمیٹی نے بتایا کہ شرح مبادلہ کے مارکیٹ پر مبنی لچکدار نظام نے جاری نظام میں مثبت تبدیلی کو ممکن بنایا اور یہ نظام بیرونی دباؤ کے باوجود زرمبادلہ کے مجموعی اور خالص ذخائر میں انتہائی اہم اضافے کے لیے معاون رہا ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ اس نظام کے تحت اسٹیٹ بینک شرح مبادلہ میں کسی منفی رجحان کو نہیں روکتا بلکہ اگر مداخلت کرتا بھی ہے تو مارکیٹ کی بدنظمی کی صورتحال کو درست کرنے کی حد تک کرتا ہے۔

کمیٹی نے بتایا کہ اس نظام کے آغاز سے اب تک روپے کی قدر صرف 4.8 فیصد گری ہے جو اس عرصے میں کئی دوسری ابھرتی ہوئی مارکیٹ کرنسیوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، روپے کو جب سے فلوٹ کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 گنا بڑھ کر 20 ارب ڈالر ہو چکے ہیں جون 2019 سے اگست 2021 تک خالص بین الاقوامی ذخائر میں تقریباً 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے بتایا گیا کہ جون میں مہنگائی 9.7 فیصد تھی جو جولائی اور اگست میں کم ہو کر 8.4 فیصد رہ گئی ہے، اگست میں شہری اور دیہی علاقوں دونوں میں مہنگائی میں کمی آئی البتہ جولائی میں قیمتوں کی رفتار نسبتاً بلند رہی۔

یہ بھی پڑھیں: اگست میں گاڑیوں کی فروخت میں 93 فیصد اضافہ ہوا

زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ مستقبل میں مہنگائی کے منطرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں بالخصوص ایندھن اور بجلی کے ساتھ ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہو گا۔

یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے 25 جون 2020 کو ہونے والے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 100 بیس پوائنٹ کم کر کے 7 فیصد کردیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے باعث مارچ سے اپریل 2020 تک ایک ماہ کے عرصے میں 3 مرتبہ شرح سود میں کمی کا اعلان کیا تھا۔

17 مارچ 2020 کو 75 بیسز پوائنٹس کم کرتے ہوئے شرح سود 12.5 کردی گئی تھی جس کے ایک ہی ہفتے بعد پالیسی ریٹ میں مزید ڈیڑھ فیصد کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس کے بعد 16 اپریل 2020 کو اسٹیٹ بینک نے کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے باعث شرح سود میں 2 فیصد کمی کا اعلان کردیا تھا جس کے ساتھ ہی شرح سود 9 فیصد ہو گئی تھی جبکہ ایک ماہ بعد 15مئی کو شرح سود مزید کم کر کے 8 فیصد تک کردی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: انٹر بینک میں ڈالر 169 روپے 60 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا

اسٹیٹ بینک نے بعد ازاں 25 جون 2020 کو کورونا وائرس کے باعث دباؤ کا شکار معیشت کو سہارا دینے کے لیے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کرتے ہوئے پالیسی ریٹ 7 فیصد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں