اقوام متحدہ کے سربراہ کی چین اور امریکا کو سرد جنگ سے دور رہنے کی تنبیہ

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2021
دنیا کی بڑی معاشی قوتوں کو ماحولیات پر تعاون کرنا چاہیے اور تجارت اور ٹیکنالوجی پر بات چیت کرنی چاہیے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
دنیا کی بڑی معاشی قوتوں کو ماحولیات پر تعاون کرنا چاہیے اور تجارت اور ٹیکنالوجی پر بات چیت کرنی چاہیے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ

ممکنہ نئی سرد جنگ کے بارے میں انتباہ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ نے چین اور امریکا سے اپیل کی کہ وہ اپنے 'مکمل طور پر غیر فعال' تعلقات کو ٹھیک کریں اس سے پہلے کہ دو بڑے اور گہرے بااثر ممالک کے درمیان مسائل پوری دنیا تک پھیل جائیں۔

یہ بات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کے عالمی رہنماؤں کے سالانہ اجلاس سے قبل اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی دو بڑی معاشی قوتوں کو ماحولیات پر تعاون کرنا چاہیے اور تجارت اور ٹیکنالوجی پر بات چیت کرنی چاہیے.

انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے آج صرف محاذ آرائی ہے'۔

سیکریٹری جنرل نے کہا کہ 'ہمیں دو قوتوں کے درمیان ایک فعال تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ویکسینیشن کے مسائل، ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل اور بہت سے دیگر عالمی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے جو بین الاقوامی برادری اور بنیادی طور پر سپر پاورز کے درمیان تعمیری تعلقات کے بغیر حل نہیں کیے جا سکتے'۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو چین اور امریکا دونوں کی ضرورت بننا ہوگا

دو سال قبل انٹونیو گوتریس نے عالمی رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ 'دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی جہاں امریکا اور چین اپنے اپنے انٹرنیٹ، کرنسی، تجارت، مالیاتی قواعد اور جیو پولیٹیکل اور فوجی حکمت عملی بنائیں گے'۔

انہوں نے انٹرویو میں اس انتباہ کو دہراتے ہوئے مزید کہا کہ دو حریف جغرافیائی اور فوجی حکمت عملی 'خطرات' پیدا کریں گے اور دنیا کو تقسیم کریں گے اس لیے تعلقات کو ٹھیک کرنا ہوگا اور جلد ہی کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر قیمت پر ایک سرد جنگ سے بچنے کی ضرورت ہے جو ماضی کی جنگ سے مختلف ہو گی اور شاید زیادہ خطرناک اور اس کا انتظام کرنا زیادہ مشکل ہو گا۔

واضح رہے کہ سوویت یونین اور اس کے مشرقی بلاک اتحادیوں اور امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے درمیان نام نہاد سرد جنگ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی اور 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔

'نئی سرد جنگ زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے'

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ایک نئی سرد جنگ زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ سوویت اور امریکا کی دشمنی نے واضح قوانین بنائے اور دونوں فریق ایٹمی تباہی کے خطرے سے آگاہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ایسے چینلز اور فورمز سامنے آئے جس سے ضمانت ملتی ہے کہ چیزیں کنٹرول سے باہر نہیں ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہر چیز زیادہ آسان ہے اور یہاں تک کہ وہ تجربہ جو ماضی میں بحرانوں کو سنبھالنے کے لیے موجود تھا اب باقی نہیں رہا'۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور برطانیہ کا آسٹریلیا کو جوہری قوت سے چلنے والی آبدوزیں فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تاکہ ایشیا میں وہ بغیر سراغ کے کام کرسکیں، 'یہ چین اور امریکا کے درمیان مکمل طور پر غیر فعال تعلقات کے بارے میں ایک پیچیدہ پہیلی کا صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اب کون کرے گا راج؟ چین یا امریکا؟

خفیہ طور پر طے پانے والے معاہدے پر چین اور فرانس میں غم و غصہ دیکھا گیا ہے جنہوں نے آسٹریلیا کے ساتھ کم از کم 66 ارب ڈالر مالیت کے ایک درجن فرانسیسی روایتی ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

نئے افغانستان میں اقوام متحدہ کا کردار

انٹرویو میں سیکریٹری جنرل نے تین بڑے مسائل پر بھی توجہ دی جن کا عالمی رہنما رواں ہفتے ہونے والے اجلاس میں بحث کریں گے۔

ان میں بدترین ماحولیاتی بحران، اب بھی بڑھتی ہوئی وبائی بیماری اور طالبان کی حکمرانی میں افغانستان کا غیر یقینی مستقبل شامل ہے۔

نئے افغانستان میں اقوام متحدہ کا کیا کردار ہوگا؟ انٹونیو گوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ کی مداخلت ایک جامع حکومت بنانے اور انسانی حقوق کی ضمانت کے قابل ہوگی، اس پر یقین رکھنا خوابوں کی دنیا میں رہنے جیسا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور بہت سے دیگر ممالک کے افغانستان میں ہزاروں فوجی تھے اور انہوں نے کھربوں ڈالر خرچ کیے اور وہ ملک کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہوسکے اور کچھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسے مزید خراب کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اقوام متحدہ کے پاس 'محدود صلاحیت اور محدود فوائد ہیں' پھر بھی یہ افغانیوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ طالبان کی توجہ ایک جامع حکومت کی اہمیت کی طرف مبذول کروا رہی ہے جو انسانی حقوق کا احترام کرے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق۔

ان کا کہنا تھا کہ واضح طور پر طالبان قیادت میں مختلف گروہوں میں اقتدار کے لیے لڑائی جاری ہے، صورتحال ابھی واضح نہیں ہے 'یہ ایک اور وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے'۔

بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکا، اقوام متحدہ کے تعلقات

جہاں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 'امریکہ فرسٹ' پالیسی سے جڑے تھے وہیں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن، جو منگل کو جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں چیف ایگزیکٹو کے طور پر پیش ہوں گے، نے کثیر الجہتی اداروں کے لیے امریکی عزم کی تصدیق کی ہے۔

مزید پڑھیں: چین کا امریکا پر دوطرفہ تعلقات میں ‘تعطل’ پیدا کرنے کا الزام

انٹونیو گوتریس نے کہا کہ جو بائیڈن کا عالمی ماحولیاتی عمل کے لیے عزم، بشمول 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا، جسے ٹرمپ نے واپس لے لیا تھا 'شاید ان سب سے اہم' ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جو بائیڈن کے تحت اقوام متحدہ اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ایک بالکل مختلف ماحول ہے تاہم مجھے اس پر فخر ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم ماضی کی انتظامیہ میں امریکہ کے ساتھ فعال تعلقات رکھیں گے، میں نے سب کچھ کیا تھا'۔

انٹونیو گوتریس نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے اور ہر ملک میں لوگوں کو ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکامی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔

ویکسین کے معاملے میں عدم مساوات

انٹونیو گوتریس نے اسے 'مکمل طور پر ناقابل قبول' قرار دیا کہ اس کے آبائی پرتگال میں 80 فیصد آبادی کو ویکسین دی گئی ہے جبکہ کئی افریقی ممالک میں 2 فیصد سے کم آبادی کو ویکسین دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'وائرس کو شکست دینے کے نقطہ نظر سے یہ مکمل طور پر احمقانہ ہے تاہم اگر یہ وائرس عالمی جنوب میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا تو مزید میوٹیشن ہوں گے اور ہم جانتے ہیں کہ میوٹیشن اسے زیادہ منتقل کے قابل اور زیادہ خطرناک بنا رہے ہیں'۔

انہوں نے جی 20 میں دنیا کی 20 بڑی معاشی قوتوں پر ایک بار پھر زور دیا کہ جو 2020 کے اوائل میں کووڈ 19 کے خلاف متحدہ کارروائی کرنے میں ناکام رہے تاکہ عالمی ویکسینیشن پلان کے لیے حالات پیدا کیے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے منصوبے کو ویکسین تیار کرنے والے ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر پیداوار کو دوگنا اور مساوی تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے تاہم اس کا انحصار سیاسی خواہشات پر ہے'۔

مزید پڑھیں: امریکا کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم، دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد بحالی پر خرچ کر رہے ہیں، درمیانی آمدنی والے ممالک تقریباً 6 فیصد اور کم ترقی یافتہ ممالک مختصر سی جی ڈی پی کا 2 فیصد خرچ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ترقی پذیر دنیا کے چند حصوں میں مایوسی اور عدم اعتماد پیدا ہوا ہے جنہیں نہ تو ویکسین ملی ہے اور نہ ہی بحالی میں مدد ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمال میں ترقی یافتہ ممالک اور جنوب میں ترقی پذیر ممالک کے درمیان تقسیم 'عالمی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں