برطانوی صحافی اور براڈ کاسٹر پیٹر اوبرن نے انگلش کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ پاکستان کے لیے ’انتہائی افسردگی‘ کا باعث ہے جس کے لیے انگلش کرکٹ بہت بڑی مقروض ہے۔

اسکائی نیوز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ای سی بی کا فیصلہ صرف پاکستان کرکٹ کے لیے نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کے لیے ایک دھچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ یہ فیصلہ سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: میچز منسوخ کرنے میں برطانوی حکومت کا کوئی دخل نہیں، ہائی کمشنر

ان کا کہنا تھا کہ ای سی بی نے اپنی ہفتہ وار اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں سیکیورٹی کا کوئی ذکر نہیں کیا تو انگلینڈ نے پاکستان سے کیے گئے وعدے کو پورا کیوں نہیں کیا؟

انہوں نے کہا کہ ’انگلینڈ کرکٹ بورڈ پاکستان کا بہت زیادہ مقروض ہے کیونکہ پاکستان گزشتہ موسم گرما میں کووڈ وبا کے دوران بھی یہاں آیا اور اگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بدلے میں کیا کیا؟

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد کچھ واقعات رونما ہو رہے تھے لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کا سفر کرسکتے ہیں۔

صحافی نے ای سی بی کے چیئرمین ایان واٹمور کو عوام کے سامنے نہ آنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

اگر سیکیورٹی کے خدشات نہ ہوتے تو ای سی بی یہ قدم کیوں اٹھا سکتا تھا؟ پر رد عمل دیتے ہوئے اوبرن نے کہا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ ای سی بی بدمعاش ہیں، وہ کھلاڑیوں سے ڈرتے ہیں، وہ بھارتیوں سے متاثر ہوتے ہیں خاص طور پر آئی پی ایل (انڈین پریمیئر لیگ) سے متاثر ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے، یہ کھلاڑیوں کی طاقت ہے، ایک متنازع، بدمعاش، بزدلانہ بورڈ جو ہمارے قریبی کرکٹ کے ساتھیوں کو لات مارنے کے لیے تیار ہے ہم پر پاکستان کا شکر اور عزت کا بہت بڑا قرض ہے‘۔

مزید پڑھیں:دورہ منسوخ ہونا پاکستانیوں کے لیے یقیناً بہت مایوس کن ہوگا، کپتان نیوزی لینڈ

علاوہ ازیں ای ایس پی این کریک انفو کے سینئر نامہ نگار جارج ڈوبیل نے اپنے مضمون میں انگلینڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کرکٹ بورڈ کی منافقت اور دوہرا معیار انہیں دوستوں سے محروم کرسکتا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 2017 کے چیمپئنز ٹرافی کے تمام میچ لندن برج حملے کے باوجود انگلینڈ میں کھیلے گئے تھے۔

جارج ڈوبیل نے کہا کہ ’اس وقت ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ہمت پکڑی اور دھمکیوں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا‘۔

صحافی نے لکھا کہ ’لیکن اگر یہ ضروری ہے کہ کرکٹ لیسٹر اور لندن میں جاری رہے تو یہ یقینی طور پر اہم ہے کہ میچز لاہور اور لاڑکانہ میں بھی جاری رہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ای سی بی کی جانب سے ان کے دورے کی منسوخی کا اعلان دراصل دوہرے معیار کا کلچر ہے جو محض کچھ اقوام کو دیکھنے کے لیے ظاہر ہوتا ہے جبکہ دوسروں کے مقابلے میں بہت کم اہم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں، رمیز راجا

ای ایس پی این کریک انفو کے سینئر نامہ نگار جارج ڈوبیل نے کہا کہ برطانوی دفتر خارجہ اور نہ ہی ای سی بی کے اپنے سیکیورٹی ماہرین نے پاکستان کے لیے اپنی ٹریول ایڈوائزری کو تبدیل کیا تھا۔

انہوں نے مضمون میں اپنے قارئین کو یاد دلایا کہ پاکستان نے ’2020 میں انگلینڈ کی مدد کے مطالبات کا جواب دیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے وعدہ کیا اور برطانیہ میں کرکٹ کی روشنی بحال رکھنے کے لیے برمنگھم کے حیات ہوٹل میں 10 دن قرنطینہ میں گزارے، انہوں نے ملک میں 7 ہفتے گزارے اور یہ وہ وقت تھا جب ملک میں ویکسین نہیں تھی لیکن انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ انگلینڈ کے گراؤنڈز میں لائٹس روشن رکھی جا سکیں۔

خیال رہے کہ چند دن قبل ہی نیوزی لینڈ نے ون ڈے سیریز کے آغاز سے چند گھنٹے قبل دورہ پاکستان، سیکیورٹی وجوہات کے باعث منسوخ کردیا تھا اور ہفتے کو نیوزی لینڈ کی ٹیم وطن واپس لوٹ گئی تھی۔

بعد ازاں انگلینڈ نے آئندہ ماہ دورہ پاکستان سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں ہم نے انتہائی ہچکچاہٹ کے ساتھ خواتین اور مرد دونوں ٹیموں کے دورہ پاکستان سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔

انگلینڈ کی ٹیم کو دو ٹی20 میچوں کی سیریز کے لیے آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔

انگلش کرکٹ بورڈ نے کہا تھا کہ ہمارے کھلاڑیوں اور سپورٹ اسٹاف کی ذہنی اور جسمانی صحت کی نگہداشت ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم جن موجودہ حالات سے گزررہے ہیں اس میں یہ مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے بعد انگلینڈ بھی دورہ پاکستان سے دستبردار

اس حوالے سے پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجا نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ برادری اس طرح رویہ اختیار کرے گی تو ہم بھی آگے چل کر کسی بات کا لحاظ نہیں کریں گے۔

پی سی بی کی ویب سائٹ پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ سیکیورٹی کو جواز بنا کر نیوزی لینڈ کی ٹیم چلی گئی جبکہ انہوں نے سیکیورٹی خدشات سے متعلق کوئی معلومات شیئر نہیں کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں