ٹی20 ورلڈ کپ میں کھیلے جانے والے فائنلز پر ایک نظر

13 نومبر 2021
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ٹی20 ورلڈکپ ٹرافی کیلئے کل دبئی میں ٹکرائیں گی۔ فوٹو: ٹوئٹر
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ٹی20 ورلڈکپ ٹرافی کیلئے کل دبئی میں ٹکرائیں گی۔ فوٹو: ٹوئٹر

کرکٹ، وہ واحد کھیل ہے جس میں ہر کچھ عرصے بعد نہ صرف تبدیلی آتی رہتی ہے بلکہ نئے نئے قوانین بھی لاگو ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے پہلے صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جاتی ہے، پھر ایک روزہ کرکٹ کا رواج قائم ہوا اور جب یہ محسوس ہوا کہ مصروفیت کے سبب پانچ دن یا پورے دن کا کھیل لوگوں کے لیے دیکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے تو ٹی20 کرکٹ کا آغاز ہوا۔

اس طرز کا پورا کھیل محض ساڑھے تین گھنٹے میں مکمل ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ فارمیٹ کھیلنے والوں کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کو بھی پُرجوش رکھتا ہے۔ اپنی اس خاصیت کے سبب اس فارمیٹ نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہے۔

چھٹے آئی سی سی ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز رواں ماہ 24 اکتوبر سے ہوا اور کل بروز اتوار نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی ٹرافی کیلئے دبئی کے کرکٹ اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گی۔

فائنل سے پہلے ماضی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے فائنلز پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ماضی کی کچھ یادیں ایک بار پھر تازہ ہوجائیں۔

2007ء

2007ء میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی20 فائنل پر پوری دنیا کی نظریں تھیں۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ کہ یہ اس طرز کا پہلا ورلڈ کپ فائنل تھا اور دوسری وجہ یہ کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیل جارہا تھا۔

فائنل جوہانسبرگ میں کھیلا گیا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ یہ میچ پہلی بال سے ہی دلچسپ رہا، محمد آصف کی کروائی گئی بال پر یوسف پٹھان رن آوٹ ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اننگ کے اختتام پر بھارت نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 157 رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے گوتم گھمبیر نے سب سے زیادہ 75 رنز بنائے جبکہ پاکستان کی جانب سے عمر گل نے سب سے زیادہ 3 وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں پاکستان کی اننگ ابتدا سے ہی مشکلات کا شکار رہی اور پہلے ہی اوور میں محمد حفیظ آر پی سنگھ کی بال پر کیچ آوٹ ہوگئے۔ میچ چلتا رہا اور وکٹیں گرتی رہیں۔ 158رنز کے تعاقب میں محض 77 رنز پر قومی ٹیم کے 6 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے اور اب بھارت کی جیت بہت آسان دکھائی دے رہی تھی، لیکن اس موقع پر مصباح الحق نے ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مسلسل کوششوں کے نتیجے میں میچ کو آخری اوور تک پہنچادیا جہاں پاکستان کو جیتنے کے لیے 13 رنز کی ضرورت تھی، لیکن قومی ٹیم کے پاس بس ایک ہی وکٹ باقی رہ گئی تھی۔ جب پاکستان کو جیت کے لیے 4 بال پر محض 6 رنز درکار تھے تو اسی موقع پر مصباح ایک غلط شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوگئے اور یوں پاکستان ٹی20 کرکٹ کے بادشاہ کا تاج اپنے سر نہ سجا سکا، تاہم حالات بہت جلد بدلنے والے تھے۔

محض 16 رنز دیکر 3 وکٹیں لینے کی وجہ سے عرفان پٹھان کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔


2009ء

دو سال بعد لارڈز کے تاریخی میدان میں ایک بار پھر ٹی20 ورلڈکپ فائنل کا اسٹیج سجا۔ اس فائنل میں ایک بار پھر قومی ٹیم پہنچی اور مقابلہ سری لنکن ٹیم سے تھا جو پورے ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست چلی آرہی تھی۔

سری لنکن کپتان کمار سنگاکارا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی جانب سے باؤلنگ کا آغاز نوجوان فاسٹ باؤلر محمد عامر نے کیا اور پہلے اوور کی پانچویں بال پر ہی مخالف ٹیم کے اہم کھلاڑی تلکارتنے دلشان کو آؤٹ کردیا۔

دوسرے اوور میں عبدالرزاق نے جہاں مبارک کو پویلین کی راہ دکھائی اور چوتھے اوور میں ایک اور اہم کھلاڑی سنتھ جے سوریا کو بھی آؤٹ کردیا۔ سری لنکن کپتان کمار سنگاکارا ایک جانب سے محاذ سنبھالے رہے اور دوسری جانب وکٹیں گرتی رہیں۔ صرف انجیلو میتھیوس ہی ان کا کچھ ساتھ دے سکے۔ اس پوری اننگ میں پاکستانی باؤلرز کی زبردست کارکردگی کی وجہ سے سری لنکا کا رن ریٹ 7 رنز سے اوپر نہیں جاسکا اور یوں سری لنکا کی ٹیم 20 اوورز میں 138 رنز ہی بناسکی۔

جواب میں پاکستان نے بہت محتاط انداز میں آغاز کیا اور رن ریٹ کو درکار رن ریٹ کے قریب ہی برقرار رکھا۔ پاکستان کی پہلی وکٹ آٹھویں اوور میں گری جب کامران اکمل جے سوریا کی بال پر اسٹمپ آؤٹ ہوئے۔ تاہم شائقین کے لیے تو میچ اب شروع ہوا تھا کیونکہ کامران اکمل کی جگہ لینے شاہد آفریدی کریز پر آچکے تھے۔ میچ کے 10ویں اوور میں پاکستان کی دوسری وکٹ گری۔ اب آفریدی کا ساتھ دینے کے لیے شعیب ملک کریز پر آئے۔ ان دونوں تجربہ کار کھلاڑیوں نے میچ کے زیادہ تر حصے میں سنگل اور ڈبل رنز پر ہی انحصار کیا تاہم رن ریٹ برقرار رکھنے کے لیے آفریدی نے 14ویں اوور میں مرلی دھرن کو ایک چھکا اور چوکا جڑدیا۔

18ویں اوور کے آغاز پر پاکستان کو جیت کے لیے 28 رنز کی ضرورت تھی، اس سے پہلے کہ صورتحال خراب ہوتی آفریدی نے اسی اوور کی پانچویں بال پر ایک چھکا اور چھٹی بال پر ایک چوکا جڑ دیا۔

اگلے اوور کے آغاز پر پاکستان کو 7 رنز کی ضرورت تھی۔ یہ اوور ملنگا کے حصے میں آیا اور ان کا سامنا کرنے کے لیے آفریدی موجود تھے۔ اسٹیڈیم میں موجود تماشائی اتنے پُرجوش تھے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ اوور کی پہلی بال پر ایک رن بنا، اگلی بال پر شعیب ملک نے چوکا لگایا اور اس کے بعد والی بال پر ایک رن بناکر اسکور برابر کردیا۔

چوتھی بال پر پھر آفریدی اور ملنگا آمنے سامنے تھے اور پاکستان کو جیت کے لیے ایک رن درکار تھا۔ ملنگا نے ایک یارکر کروائی جو آفریدی کے پیڈ سے لگ کر آف سائیڈ پر چلی گئی، یہ لیگ بائی تھی لیکن آفریدی کو کیا پروا تھی، انہوں ہیلمٹ اور بیٹ فضا میں بلند کرکے اپنے مخصوص انداز میں جیت کا اعلان کردیا تھا۔ یوں اس بار کپتان یونس خان کی قیادت میں ٹی20 کرکٹ کے بادشاہ کا تاج پاکستان کے سر سج گیا تھا۔

شاہد آفریدی کو ان کی آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انہوں نے 20 رنز دیکر ایک وکٹ حاصل کی اور 40 گیندوں پر اہم 54 رنز بھی بنائے تھے۔


2010ء

16 مئی 2010ء کو تیسرے ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل برج ٹاؤن ویسٹ انڈیز میں دنیائے کرکٹ کے دو سب سے پرانے حریف یعنی آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔

انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی 3 اوور میں ہی آسٹریلیا کے 3 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے لیکن ڈیوڈ ہسی اور کیمرون وائٹ نے ٹیم کو سہارا دیا اور 20ویں اوور کے اختتام پر آسٹریلیا نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 148 رنز کا ہدف دیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے ڈیوڈ ہسی نے سب سے زیادہ 59 رنز بنائے۔

جواب میں انگلینڈ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب دوسرے ہی اوور میں 7 رنز بنانے کے بعد مائیکل لیمب کیچ آؤٹ ہوگئے۔ تاہم اس کے بعد کیون پیٹرسن اور کریگ کیزویٹر کریز پر جم گئے اور دوسری وکٹ پر 111 رنز کی شاندار شراکت قائم کی جس نے انگلینڈ کو جیت سے قریب تر کردیا۔

یہ شراکت 14ویں اوور میں کیون پیٹرسن کے آوٹ ہونے پر ختم ہوئی۔ 15ویں اوور میں کریگ بھی آؤٹ ہوگئے۔ اب کریز پر پال کولنگ ووڈ اور این مورگن موجود تھے جنہوں نے 17ویں اوور کی آخری بال پر انگلینڈ کو فتح سے ہمکنار کردیا۔ یہ آئی سی سی کے کسی بھی عالمی مقابلے میں انگلینڈ کی پہلی فتح تھی۔ اس میچ میں انگلینڈ کی جانب سے کریگ کیزویٹر نے سب سے زیادہ 63 رنز بنائے۔

49 گیندوں پر شاندار 63 رنز بنانے پر کریگ کیزویٹر کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔


2012ء

چوتھے ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل 7 اکتوبر 2012ء کو کولمبو میں میزبان سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا۔ ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس فیصلے کے کچھ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے اور 10 اوورز میں ویسٹ انڈیز نے 2 وکٹوں کے نقصان پر محض 32 رنز ہی بنائے۔

تاہم مارلن سیمیولز، ڈوائن براوو اور ڈیرن سیمی نے ٹیم کو سہارا دیا اور 20 اوورز کے اختتام پر ویسٹ انڈیز کا اسکور 6 وکٹوں کے نقصان پر 137 رنز تک پہنچ گیا۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے مارلن سیمیولز نے سب سے زیادہ 78 رنز اسکور کیے۔

جواب میں سری لنکا کا آغاز نسبتاً بہتر تھا اور 10ویں اوور کے اختتام پر سری لنکا کا اسکور 2 وکٹوں کے نقصان پر 51 رنز کا تھا۔ لیکن اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے باؤلرز مخالف ٹیم پر ٹوٹ پڑے۔

16ویں اوور میں سری لنکا کے نوان کولاسیکرا نے کچھ مزاحمت دکھائی لیکن اگلے ہی اوور میں وہ بھی آؤٹ ہوگئے۔ یوں سری لنکن ٹیم 19 ویں اوور کی چوتھی بال پر 101 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی اور ٹی20 ورلڈ کپ فائنل میں جیت ویسٹ انڈیز کے نصیب میں آئی۔ اس جیت میں ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کا کلیدی کردار رہا۔

میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ مارلن سیمیولز کو ملا جنہوں نے 56 گیندوں پر شاندار 78 رنز کی اننگ کھیلنے کے ساتھ ساتھ 15 رنز دیکر ایک وکٹ بھی حاصل کی۔


2014ء

پانچویں ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل 6 اپریل 2014ء کو ڈھاکا میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔

میچ کے دوسرے ہی اوور میں اینجلو میتھیوز نے بھارتی اوپنر اجنکے رہانے کو پویلین کی راہ دکھادی۔ 10 اوورز کے اختتام پر بھارت کا اسکور ایک وکٹ کے نقصان پر 64 رنز کا تھا۔ 11ویں اوور میں روہت شرما 29 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو ان کی جگہ ویرات کوہلی نے لے لی۔ کوہلی کی 77 رنز کی جارحانہ اننگز کے سبب 20 اوورز کے اختتام پر بھارت نے 4 وکٹوں کے نقصان پر 130 رنز بنائے۔

جواب میں سری لنکا کا آغاز بھی بھارت سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ اننگ کے دوسرے ہی اوور میں کوسل پریرا 5 رنز بناکر موہت شرما کی بال پر کیچ دے بیٹھے۔ تاہم سری لنکا نے کھیل کا تسلسل برقرار رکھا اور 10 ویں اوور کے اختتام پر سری لنکا نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 63 رنز بنا لیے تھے۔

وقتاً فوقتاً وکٹیں گرنے کے باوجود سری لنکن کھلاڑی دباؤ میں نہیں آئے اور پوری اننگ میں رن ریٹ برقرار رکھنے کے لیے چھکے چوکے بھی لگا تے رہے۔ بلآخر 18ویں اوور کی 5ویں بال پر تھیسارا پریرا نے اشون کو ایک چھکا جڑ کر سری لنکا کو فتح سے ہمکنار کردیا۔ سری لنکن ٹیم تیسری مرتبہ ٹی20 ورلڈ کپ فائنل کھیل رہی تھی اور اس بار قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو ہی گئی۔

سری لنکا کی اس جیت میں تجربہ کار کمار سنگاکارا کا اہم کردار تھا جنہوں نے 35 گیندوں پر 52 رنز کی ذمہ دارانہ اننگ کھیلی اور اس کارکردگی کی بنیاد پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔


2016ء

چھٹے آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل 3 اپریل 2016ء کو ایڈن گارڈن کلکتہ میں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے مابین کھیلا گیا۔

ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ میچ کے ابتدائی 5 اوورز میں ہی انگلینڈ کی 3 وکٹیں گر چکی تھیں تاہم جاس بٹلر اور جو روٹ نے ٹیم کے اسکور میں ضروری اضافہ کیا اور اننگ کے اختتام پر انگلینڈ نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 155 رنز بنا لیے تھے۔ انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ نے سب سے زیادہ 54 رنز اسکور کیے۔

جواب میں ویسٹ انڈیز کی اننگ سست رفتاری کا شکار رہی اور 10 اوورز کے اختتام پر ویسٹ انڈیز کا اسکور 3 وکٹوں کے نقصان پر 54 رنز کا تھا۔ تاہم مارلن سیمیولز کی ذمہ دارانہ بیٹنگ کے سبب 19 ویں اوور کے اختتام پر ویسٹ انڈیز کو جیت کے لیے 19 رنز درکار تھے اور 4 وکٹیں بھی باقی تھی۔

انگلینڈ کی جانب سے آخری اوور بین اسٹوکس کو دیا گیا اور ان کا سامنا کرنے کے لیے ویسٹ انڈیز کے نوجوان کارلوس بریتھویٹ موجود تھے۔ اس موقع پر اکثریت کا خیال تھا کہ یہ میچ انگلینڈ جیت جائے گا، لیکن یہاں بریتھویٹ نے جو کارکردگی دکھائی وہ شائقین کرکٹ ایک طویل عرصے تک یاد رکھیں گے۔

بریتھویٹ نے حیران کن طور پر اوور کی ابتدائی 4 گیندوں پر 4 چھکے لگاکر سب کو غلط ثابت کردیا اور ویسٹ انڈیز کو دوسری بار ٹی20 چیمپئن بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ دوسری جانب بین اسٹوکس سکتے کی حالت میں چلے گئے اور اس کارکردگی کا اثر بہت عرصے تک ان پر رہا۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم جب 2012ء میں ٹی20 چیمپئن بنی تھی اس وقت بھی اس جیت میں اہم ترین کردار مارلن سیمیولز کا تھا، اور اس بار بھی وہی اہم ترین کھلاڑی رہے جن کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم دوسری بار چیمپئن بنی۔ اس میچ میں سیمیولز نے 66 گیندوں پر 85 رنز کی زبردست اننگ کھیلی اور اس کارکردگی کی وجہ سے انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں