جب لاہور-اسلام آباد موٹروے بن رہی تھی تو لندن میں جائیدادیں خریدی جارہی تھیں، فواد چوہدری

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2021
فواد چوہدری نے سابق حکومت پرکرپشن  کے الزامات عائد کیے---فائل/فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے سابق حکومت پرکرپشن کے الزامات عائد کیے---فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب لاہور-اسلام آباد موٹروے بن رہی تھی تو لندن میں ایون فیلڈ کی جائیدادیں خریدی جارہی تھیں۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سابق ادوار میں کرپشن کو قانونی طریقے سے تحفظ فراہم کیا گیا، جب لاہور۔اسلام آباد موٹر وے کا معاہدہ ہو رہا تھا تو عین اسی وقت لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے جا رہے تھے۔

مزید پڑھیں: 'مہنگائی بہت ہے' گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت سے متعلق ٹوئٹ پر فواد چوہدری پر تنقید

انہوں نے کہا کہ 4 دسمبر 2002 کو ڈان اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد موٹر وے کی لاگت 60 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2002 میں موٹر وے کی کل آمدن 45 کروڑ روپے تھی جبکہ 60 ارب ڈالر کی یہ موٹر وے بنی ہے، عمران خان سڑکوں کے خلاف نہیں، وہ کرپشن کے خلاف تھے جو سڑکوں کے نام پر کی جا رہی تھی۔

وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ جس دن موٹروے کے لیے نواز شریف حکومت کا معاہدہ ہوا عین اسی وقت میں لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے گئے، جب ہمارے ہاں موٹر وے پر دستخط ہورہےتھے جو اس وقت اس خطے میں دنیا کے مہنگے ترین منصوبوں میں شامل سمجھا جاتا ہے، اسی وقت لندن برطانیہ میں نوازشریف اور فیملی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خرید رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں کے ٹھیکوں کے نام پر بڑی کرپشن کر رہے تھے اور یہ پیسہ پاکستان میں نہیں لگ رہا تھا بلکہ ملک سے باہر جا رہا تھا اور یہ پیسہ قرضوں میں آرہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے موٹر وے میں ڈائیوو کمپنی کو صرف دو ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کیے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ موٹر وے ضرور بننی چاہیے، سڑکوں کے بغیر ترقی کا تصور ہی نہیں لیکن جب آپ سڑکوں کو اتنا بڑا کاروبار بنا لیں جو شریف فیملی نے بنایا تو پھر ملک کی معیشت کمزور ہوئی۔

مزید پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کیلئے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ لوکل کرپشن سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں لیکن جب ملک کا وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین مل کر کرپشن کریں گے تو پھر قومیں تباہ ہوتی ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ 1947 سے 2008 تک 65 برسوں میں پاکستان کا مجموعی قرض 6 ٹریلین تھا، 2008 سے 2018 تک 10 سال میں زرداری فیملی اور شریف فیملی نے اس قرضے کو 27 ٹریلین تک پہنچا دیا، ہم نے صرف تین سال کے دوران 10 ارب ڈالر قرض واپس کیا جو ان دونوں نے لیا تھا اور اب ایک پہاڑ ہے جس کو واپس کرنا ہے اور یہ پہاڑ ایسے ہی منصوبوں کی وجہ سے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جب بجلی، سڑکوں یا ترقی کا کوئی معاملہ ہو جب ہم اس کو اٹھاتے ہیں تو پتا چلتا ہے اس کے نیچے کرپشن کا ایک پہاڑ کھڑا ہے، یہ پیسہ شریف فیملی اور زرداری فیملی نے پاکستان سے لیا اور بدقسمتی سے پاکستان کے اوپر بھی نہیں لگایا اور ملک سے باہر گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پر 25 ارب روپے کا مقدمہ ہے، یہ رقم شہباز شریف کے ملازمین کے اکاؤنٹس سے انہیں منتقل کی گئی، یہ وہ پیسہ ہے جس کا ہمیں معلوم ہے، اربوں روپے جس کا ہمیں پتا نہیں ہے جو لندن اور فرانس میں ہے اور بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ روس میں پیسہ چھپایا ہوا ہے اور ہمیں اس کا پتا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ملک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہوتا ہے، آپ کے ہاں چیزوں کی قیمتیں اوپر جاتی ہیں اور عمومی استعمال کی چیزیں، بجلی اور گیس مہنگی ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کے وزیراعظم اور کابینہ ایک منظم کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق دور میں پاکستان کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا، پاکستان کے عوام کا خون نچوڑا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا نوٹس: فواد چوہدری نے جواب دینے کیلئے 6 ہفتوں کی مہلت مانگ لی

سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں سڑکوں کی تعمیر کے لیے ایک ہزار کروڑ کے مہنگے معاہدے کیے گئے، یہی وہ مافیا ہے جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لڑائی ہے، آج قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں اور پیٹرول، سبزیاں اور دالیں مہنگی ہونے کی وجہ یہی کرپشن ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بدعنوانی قانونی طریقے سے کرپشن کی ایک مثال ہے، انہوں نے پہلے جب 1990 کی دہائی میں جب موٹر وے کا معاہدہ کیا تو اسی وقت ہنڈی کے ذریعے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے رقم بیرون ملک بھیجی لیکن 1993 میں قانون بنا کہ باہر سے جو پیسہ آئے گا اس کو نہیں پوچھا جائے گا، ہم حدیبیہ کیس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اب تک ہم کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک کے مجموعی بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی واپسی ہو تو اس ملک میں مشکلات درپیش آتی ہیں، ملک میں تیل درآمد ہوتا ہے، اس کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے منسلک ہوتی ہیں، اگر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک کے اندر قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اس پر سبسڈی دینا پڑتی ہے لیکن اگر ملک پر قرضوں کا بوجھ ہو تو سبسڈی دینے میں مشکلات ہوتی ہیں۔

وزیراطلاعات نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف آج ٹسوے بہاتے ہیں کہ لٹ گئے مر گئے، برباد ہو گئے، انہی کی وجہ سے آج مہنگائی ہے، مگر مچھ کے آنسو بہانے والے ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں آج عوام کو مشکل صورت حال درپیش ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں