تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ملک کے آئین کو مان کر چلنا چاہتے ہیں، فواد چوہدری

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2021
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ وفا کا عہد  کرنے والوں کو ریاست زندگی کے دھارے میں واپس آنے کا موقع دینا چاہتی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ وفا کا عہد کرنے والوں کو ریاست زندگی کے دھارے میں واپس آنے کا موقع دینا چاہتی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مختلف گروہ ملک کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے اور آئین کو مان کر آگے چلنے کا پیمان کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ریاست ان کو زندگی کے دھارے میں واپس آنے کا ایک موقع دینا چاہتی ہے۔

فواد چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب وزیراعظم عمران خان کے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بیان کو اپوزیشن اور سینئر صحافیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر صحافیوں، سیاست دانوں کی تنقید

وزیر اطلاعات نے ویڈیو بیان میں کہا کہ ریاست پاکستان آگ اور خون کے دریا سے ہو کر نکلی ہے، ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں جہاں ہم نے القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو شکست دی وہیں ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کو بھی مکمل طور پر ختم کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور پرعزم کھڑا ہے لہٰذا اب ضرورت آگے چلنے کی ہے کیونکہ ریاست کی پالیسیاں ایک مخصوص پس منظر اور حالات میں بنتی ہیں اور انہی مخصوص حالات میں بے شمار خاندان اور لوگ جو پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد نہیں نبھا سکے وہ یہ عہد نبھانے واپس آنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ناراض اور ہندوستان کی ریشہ دانیوں کا شکار تین ہزار سے زائد لوگ واپس آ چکے ہیں، اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ہیں، ان گروہوں میں ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کے ساتھ اپنی وفا کا عہد نبھانا چاہتے ہیں اور آئین کو مان کر آگے چلنے کا پیمان کرنا چاہتے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ایسے لوگوں کو ریاست کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آسکیں اور وزیراعظم نے آج جو اصول وضع کیے ہیں وہ یہی اصول ہے کہ ہم اپنے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان لوگوں کو واپس راستے پر لاسکیں جو مخصوص حالات کے پیش نظر پاکستان کے راستے سے جدا ہو گئے تھے اور یہ لوگ پاکستان کے عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں۔

ٹی ٹی پی کے کچھ گروہوں سے بات چیت ہورہی ہے، وزیراعظم

اس سے قبل ترک میڈیا 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے چند گروپس ہم سے مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

عمران خان نے کہا کہ 'ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے'۔

کیا وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے پوچھا کہ ہم اس بارے میں کیا سوچتے ہیں، شیری رحمٰن

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمٰن نے اس معاملے پر وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے دوبارہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو معافی دینے کی بات کی ہے، کیا انہوں نے پارلیمنٹ سے پوچھا کہ ہم اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا انہوں نے اس پر ٹی ٹی پی کا ردعمل لیا ہے؟

شیری رحمٰن نے اس سے قبل بدھ کو سینیٹ میں بھی اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کو عام معافی دیں گے، ہمیں اس کی تفصیلات دیں، آپ ان لوگوں کو کیسے معافی دے سکتے ہیں جنہوں نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا، آپ ان لوگوں کو کیسے معافی دے سکتے ہیں جو سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے ذمے دار ہیں، آپ یہ فیصلے کہاں کررہے ہیں اور دنیا آپ پر ہنس رہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق بیان پر فوری طور پر پارلیمان کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی آئینِ پاکستان کے تحت چلنا چاہے تو عام معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت

پی پی پی کے رہنما نیئر بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بیان انتہائی حساس ہے اور انہوں نے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کو معاف کردینے کا بیان بھی دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق پارلیمان کو بائے پاس کیا گیا ہے اور پارلیمان کو بتایا جائے کہ افغانستان میں جاری مذاکرات کی کیا شرائط ہیں۔

نیئر بخاری نے سوال کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو بے خبر کیوں رکھا گیا؟ اس طرح کے اقدامات سے بین الاقوامی سطح تک ملک سے متعلق منفی تاثر جنم لے گا لہٰذا حکومت فوری طور پر پارلیمان کا اجلاس بلاکر مذاکرات سے متعلق اعتماد میں لے۔

صدر مملکت بھی ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے پر متفق

یاد رہے کہ اس سے قبل صدر مملکت بھی ہتھیار ڈالنے کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'دہشت گرد' کہنے سے گریز کریں ورنہ دشمنوں کی طرح پیش آئیں گے، ٹی ٹی پی کی میڈیا کو دھمکی

گزشتہ ماہ ڈان نیوز کے پروگرام 'خبر سے خبر' کے لیے دیئے گئے انٹرویو میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ اگر ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، تو پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر اگر یہ لوگ پاکستان کے آئین کی پابندی کرتے ہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے کوئی معافی کا اعلان کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں