ہمیں معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے لوگ تکلیف میں ہیں، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی تھی پھر پیسہ آیا تھا—تصویر: ڈان نیوز
وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی تھی پھر پیسہ آیا تھا—تصویر: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ تکلیف میں ہیں لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے کہ ہمارے نچلے طبقے کو ایسے وقت تکلیف نہ ہو جب اشیا مہنگی ہیں۔

اسلام آباد میں کامیاب پاکستان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں تیل کی قیمت گزشتہ چند روز میں 100 فیصد بڑھی ہے جبکہ پاکستان میں ہم نے صرف 22 فیصد اضافہ کیا اور دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والے 19 ممالک کے سوا پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت سب سے کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں گندم کی قیمت میں 37 فیصد اضافہ ہوا اور پاکستان میں صرف 12 فیصد قیمت بڑھائی گئی، دنیا میں چینی کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور پاکستان میں صرف 21 فیصد قیمت بڑھائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں پیٹرول اب بھی سستا ہے، وفاقی وزیر خزانہ

انہوں نے کہا کہ ملک پر قرضوں اور مختلف مالی خساروں کے باوجود ہم نے اپنی طرف سے کم سے کم اثرات نچلے طبقے پر منتقل کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی کو نیچے لایا گیا ہے اس لیے سب سے سستی قیمتیں ہماری ہیں، اگر کم نہ کیا جاتا تو ایک سال میں حکومت کو 4 کھرب روپے کا فائدہ تھا حالانکہ بھارت میں ہماری سے دگنی قیمتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کامیاب پاکستان پروگرام ہم نے آج شروع کیا ہے اسے 74 سال قبل شروع ہوجانا چاہیے تھا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ 74 سال قبل بڑی غلطی کی کہ ہم سمجھتے تھے کہ جب ہمارا ملک خوشحال ہوجائے، ہمارے پاس پیسہ آجائے پھر پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوچ کے پہلے ہمارے پاس پیسہ اکٹھا ہوگا، ملک میں سرپلس ہوگا تو ہم غریبوں پر لگائیں گے، یہ غلط فیصلے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ریاست مدینہ کی اس لیے بات کرتا ہوں کیوں کہ وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل تھا اس کے نتائج تاریخ کا حصہ ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی تھی پھر پیسہ آیا تھا پھر خوشحالی آئی تھی، یہ خیال بالکل غلط ہے کہ پہلے پیسہ آیا تھا پھر انہوں نے نچلے طقبے کو منتقل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت اور انصاف تہذیبوں کی بنیاد ہیں، بھارت اور چین کو دیکھ لیں دونوں کی ایک جتنی آبادی ہے 35 سے 40 سال قبل دونوں ممالک کی صورتحال ایک جیسی تھی، آج چین آسمان پر پہنچ گیا ہے جبکہ بھارت میں وہی امیر لوگوں کا ایک جزیرہ ہے اور نیچے غربت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے ریاست مدینہ کی پیروی کی ہے کہ نیچے سے لوگوں کو اوپر اٹھایا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بانیانِ پاکستان نے کہا تھا کہ یہ اسلامی فلاحی ریاست بنے گی تو اس فیصلے پر کبھی عمل ہی نہیں ہوا بلکہ اشرافیہ کا نظام بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کے نظام میں ہی دیکھ لیں کہ چھوٹے سے طبقے کو انگریزی میڈیم میں تعلیم دلوا کر نوکریاں انہیں دلوادیں باقی عوام اوپر ہی نہیں آسکتی اور پھر دینی مدراس چل رہے ہیں، کبھی کسی نے ان سب کو ملانے کی کوشش نہیں کی کہ ایک ملک ہے ایک قوم ہے، اس کا نصاب تو ایک ہو۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا مسلم لیگ (ن) کے دور میں سڑکوں کی تعمیر پر آنے والی لاگت کی چھان بین کا اعلان

بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ لیکن چونکہ ہماری طرح کی اشرافیہ اس سے فائدہ اٹھا رہی تھی، بچوں کو اچھی نوکریاں مل رہی تھیں اس لیے ہمیں کوئی فائدہ نہیں تھا کہ اس نظام کو تبدیل کریں اور جو لوگ اردو میڈیم سے پڑھ کر اوپر آئے انہوں نے بھی اپنے بچے پھر انگلش میڈیم میں بھیجے اور فیصلہ سازی کا اختیار ملنے پر بھی انہوں نے نظام تبدیل نہیں کیا کیوں کہ اس سے انہیں فائدہ ہورہا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ شفقت محمود کو یکساں نصاب تعلیم متعارف کرانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اس پر بھی کتنے اعتراض اٹھ رہے ہیں، شرم نہیں آتی ان لوگوں کو کہ معلوم ہے کہ ناانصافی کا نظام ہے پھر بھی تبصرہ کررہے ہیں کہ لوگوں کو پیچھے لے کر جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا نظام اشرافیہ کے لیے ہے، قرضے امیروں کے لیے، گھر امیر بناتے ہیں، تعلیم امیروں کے لیے انصاف کا نظام پیسے والوں کے لیے غریب کو انصاف ہی نہیں مل سکتا، جب تک بنیادی طور پر ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوگی معاشرہ اوپر نہیں جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا معاشرہ اوپر نہیں جاسکتا جہاں امیروں کا جزیرہ ہو اور غریبوں کا سمندر ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہاں غریبوں کو گھر بنانے کے لیے پیسے نہیں ملتے، اس لیے مائیکرو فنانس کمپنیز لے کر آئے، کیوں کہ جب تک بینک غریبوں کو قرض دینا سیکھیں گے، ہمارے تو 5 سال پورے ہوجائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں