آف شور کمپنیاں اسٹیٹ بینک کی منظوری سے بنائی گئی تھیں، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ٹیکس چوری پر یقین نہیں رکھتے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ٹیکس چوری پر یقین نہیں رکھتے—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ان کی اور ان کے خاندان کی آف شور کمپنیاں جن کا نام پینڈورا پیپرز میں ہے دراصل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری سے کھولی گئی تھیں جب وہ اپنے بینک کے لیے کسی غیر ملکی گروپ کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

شوکت ترین کی وضاحت انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) پینڈورا پیپرز میں شامل ہونے کے فوراً بعد سامنے آئی ہے۔

مزید پڑھیں: جنید صفدر سے متعلق 'جعلی' خبر، (ن) لیگ کا 'پی ٹی وی' کےخلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان

تحقیقات کے نتائج کے مطابق شوکت ترین اور ان کے خاندان کے افراد 4 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔

آئی سی آئی جے کی رپورٹ میں سابق مالیاتی مشیر طارق فواد ملک کا حوالے دے کر کہا گیا کہ یہ کمپنیاں شوکت ترین خاندان کے سعودی کاروبار والے بینک میں مطلوبہ سرمایہ کاری کے حصول کے لیے قائم کی گئیں۔

نجی چینل جیو نیوز کے ایک شو میں بات کرتے ہوئے شوکت ترین نے وضاحت کی کہ پینڈورا پیپرز میں ان کی آف شور کمپنیاں 2013 یا 2014 میں قائم کی گئیں جب وہ سلک بینک کے لیے سرمایہ جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

وزارت خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق شوکت ترین مارچ 2008 سے مرکزی اسپانسر تھے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ان کی آف شور کمپنیاں اس لیے بنائی گئیں کیونکہ طارق بن لادن کی کمپنی مڈل ایسٹ ڈیولپمنٹ سلک بینک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) بھی شامل تھا اور غیر ملکی کمپنی کی سرمایہ کاری کی خواہش کے بارے میں آگاہ تھا۔

مزید پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک نے اصولی منظوری دی اور 4 آف شور کمپنیاں ’فنڈ ریزنگ کے لیے‘ بنائی گئی، شوکت ترین نے کہا کہ ’لیکن کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا اور نہ ہی کوئی لین دین ہوسکا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ طارق بن لادن کی کمپنی نے کراچی میں بم دھماکے کے بعد دلچسپی نہیں لی تھی۔

شوکت ترین نے کہا کہ تو یہ سب ختم ہو گیا، یہ کمپنیاں ایک سال کے اندر بند ہو گئیں اور کوئی بینک کھاتہ نہیں کھولا گیا، ایک بھی سینٹ کا کام نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ کمپنیوں کو کیوں اجاگر کیا جا رہا ہے۔

شوکت ترین نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسی بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا، کوئی لین دین نہیں ہوا اور کمپنیاں بند رہیں‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کمپنیاں ان کے اور ان کے خاندان کے اراکین کے نام پر کیوں کھولی گئیں تو انہوں نے کہا کہ وہ بینک کے پرنسپل مالک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ سرمایہ کاری کرنے یا حصص خریدنے کی خواہش کرتے تو انہیں مجھ سے بات کرنے کی ضرورت پڑتی‘، ان کے خاندان کے افراد بھی بینک کے بڑے شیئر ہولڈر تھے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک موقع پر انہیں بینک میں پیسے ڈالنے کے لیے اپنے حصص فروخت کرنا پڑے کیونکہ اسٹیٹ بینک نے کچھ سرمایہ کاروں کو مسترد کر دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی لیے میں سرمایہ کاروں کی تلاش میں تھا تاکہ میں اپنے حصص فروخت کر سکوں۔

وزیر نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کی کوشش میں کھولی گئیں، جہاں تک میرا تعلق ہے میں ہر بات واضح کرتا ہوں۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے پینڈورا پیپرز میں مذکور تمام شہریوں سے تفتیش کرنے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ’میں اس کے حق میں ہوں، کسی بھی غلط کام کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو فنڈنگ کرنے والے عارف نقوی کی آفشور کمپنیاں

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ٹیکس چوری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ وہ ’پاکستان کے شہری ہیں اور مجھے ٹیکس دینا ہوگا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے ایک رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) تحقیقات میں نامزد کمپنیوں کی تحقیقات کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں