تنازع زدہ اور جنگ سے تباہ حال افغانستان کی مکمل آئسولیشن اور مصیبت میں گرے ملک کی بقا کا دارومدار بدستور غیر ملکی امداد پر ہے، سیکیورٹی اور سیاسی پہلو ایک طرف کابل میں تبدیلی کے معاشی اثرات نے پاکستان میں بحالی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق سرمائے کی منڈی کی خراب صورت حال، روپے کی قدر میں کمی، سرمایہ کاری میں تنزلی اور اشیا کی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی پاکستان کی معاشی خرابی کی بنیادی نشانیاں ہیں، اگر دنیا اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو افغانستان افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے کورونا سے متاثرہ پاکستان اور بڑے پیمانے پر دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے لوگ تکلیف میں ہیں، وزیراعظم

مغربی میڈیا کے مطابق افغانستان کی معیشت پہلے ہی لڑکھڑا رہی ہے، 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے اب تک سپلائی لائن میں تعطل اور پابندیوں کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 30 فیصد اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 40 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اجاگر کیا تھا، انہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور پابندیاں اٹھانے پر زور دیا اور مزید کہا تھا کہ ہمیں لازمی طور پر افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہوگا۔

متعدد کاروباری حضرات نے امریکی سینیٹ میں پاکستان پر پابندیوں کے لیے بل پیش کرنے پر بے چینی کا اظہار کیا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی افغانستان کے بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تحفظات کا اظہار کیا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سابق صدر نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کو افغانستان کے مسئلے پر چمپئین بننے کے بجائے اقوام متحدہ میں ناکام افغانستان کے پاکستان پر خطرناک اثرات کو نمایاں کرنا چاہیے تھا، اقتصادی سفارت کاری کو سیاست پر ترجیح دی جانی چاہیے، انہیں بتانا چاہیے تھا کہ افغانستان میں خلا کو جلدی پُر نہیں کیا گیا تو پاکستان میں ممکنہ طور پر مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد، دہشت گردی میں اضافے کے خطرات اور پاکستان سے ڈالر اور اشیا کی منتقلی ہوگی۔

انہوں نے تقریر کے بعد مغرب سے تصادم کا خدشہ ظاہر کرتے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر نے ہمیں بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے، پاکستان کیوں دوسروں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتے۔

مزید پڑھیں: افغان عوام کی خاطر طالبان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے، وزیر اعظم

پاکستان، افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (پی اے جے سی سی آئی) کی فائزہ ناصر کچھ مطمئن نظر آئی اور انہوں نے کہا کہ کچھ بالواسطہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تاہم دو طرفہ تجارت میں مستحکم رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ جب ان کی توجہ پاکستانی منڈیوں کی لڑکھڑاتی صورت حال پر دلائی گئی تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ پی اے جے سی سی آئی کے افغانستان میں 450 اراکین ہیں اور ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں جبکہ تجارت اور ٹرانزٹ حسب معمول چل رہی ہے۔

پاکستان کے بینچ مارک KSE-100 انڈیکس میں گزشتہ سال کے دوران مسلسل اضافے کے بعد پچھلے تقریباً 6 ہفتے میں 2 ہزار 296 پوائنٹس کی کمی آچکی ہے، طالبان کی کامیابی سے پہلے 13 اگست کو مارکیٹ 47 ہزار 169پر بند ہوئی تھی جو یکم اکتوبر تک 44 ہزار873 پوائنٹ تک گر گئی۔

13 اگست کو اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 164 روپے کا تھا جبکہ پچھلے ہفتے مارکیٹ بند ہونے پر ایک ڈالر 174 روپے میں ٹریڈ ہورہا تھا، اسی طرح 45 دنوں میں روپے کی قدر میں 10 روپے کی کمی ہوئی۔

پچھلے سال معیشت کی بحالی سے درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے اور افغانستان سے طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک معروف ماہر معاشیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیپٹل مارکیٹ کے حوالے سے بتایا کہ کیپٹل مارکیٹ کو چند بروکیج کمپنیوں نے یرغمال بنا کر رکھا ہے اور یہ بروکیج کمپنیاں اب بڑے کاروباری اداروں میں منتقل ہوچکی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو معیشت کا معتبر انڈیکٹر تصور نہیں کرتا، کوئی بھی مجھے کے ایس ای 100 انڈیکس کے اتار چڑھاؤ کو تسلی بخش طریقے سے بیان نہیں کرسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں