اقوام متحدہ کے تحت تحقیقات، مشن کا لیبیا میں جنگی جرائم کا انکشاف

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2021
رپورٹ کے مطابق لیبیا میں 2016 سے جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم ہوئے— فوٹو: رائٹرز
رپورٹ کے مطابق لیبیا میں 2016 سے جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم ہوئے— فوٹو: رائٹرز

جنیوا: اقوام متحدہ کی تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ لیبیا میں 2016 سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مجرمانہ اقدامات ہوئے، جس میں بچوں کو فوج میں بھرتی کرنا بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار میں شائع اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے قائم کردہ انڈیپینڈنٹ فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے لیبیا نے بتایا کہ یورپ جانے والے مہاجرین کو انسانی اسمگلروں اور قید خانوں میں بدسلوکی کا سامنا رہا جبکہ قید مہاجرین کو خوفناک صورتحال کا سامنا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔

مزید پڑھیں: لیبیا: کمانڈر خلیفہ حفتر نے حکومت کی جنگ بندی کو مسترد کردیا

مشن نے ایک بیان میں بتایا کہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جس کی وجہ سے اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ لیبیا میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا جبکہ جیلوں میں اور مہاجرین کے خلاف تشدد کو انسانیت سوز جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ کی دستاویزات کے مطابق یہاں دشمنی کے وجہ سے بچوں کی بھرتی، جبری گمشدگی اور نامور خواتین کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

مشن نے بتایا کہ 2019 کے اواخر میں ترکی نے 15 سے 18 سال کے شامی بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے اور حکومتی فورسز کے ساتھ لڑنے کیلئے سہولت فراہم کی۔

اقوام متحدہ کے تحت بنائے گئے مشن نے کہا کہ افریقہ کے شمالی ملک میں بدامنی کے لیبیا کی معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے۔

تین رکنی مشن کے سربراہ محمد اوجار نے کہا کہ 'تنازعات میں ملوث تمام فریقین، تیسرے ممالک، غیر ملکی جنگجو اور کرائے کے فوجیوں نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی، خاص طور پر برابری کے اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، اور کچھ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا'۔

مشن نے بتایا کہ اس نے ان افراد اور گروپس کی نشاندہی کی، جن میں لیبیا کے مقامی اور غیر ملکی افراد شامل تھےاور ان پر تشدد، خلاف ورزیوں اور جرائم کی ذمہ داری عائد کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے ترکی کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا

اس فہرست کو اس وقت تک خفیہ رکھا جائے گا جب تک احتساب کا مناسب طریقہ کار نہیں مل جاتا۔

حقوق کی سنگین صورتحال

اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل نے جون 2020 میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں فیکٹ فائنڈنگ مشن کو لیبیا میں بھیجنے کی منظوری دی گئی تھی، اس اقدام کو طرابلس کی حمایت بھی حاصل تھی۔

ماہرین نے تحقیق کی بنیاد پر الزام عائد کیا کہ لیبیا میں 2016 سے بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزیاں اور بدسلوکی جاری ہے۔

مشن میں محمد اوجار کے ساتھ انسانی حقوق کے ماہرین چلوکا بیانی اور ٹریسی رابنسن بھی شامل تھیں۔

ماہرین نے کہا کہ بچوں کو دشمنی میں براہ راست شامل کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرنے کیلئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: لیبیا میں اجتماعی قبروں سے 17 لاشیں برآمد

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ تیل سے مالا مال لیبیا 2011 سے نیٹو کی حمایت سے آمر معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں قتل کرنے کے بعد سے تنازعات کا شکار ہے جبکہ مخالف انتظامیہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ 'یہ نتائج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرتے ہیں'۔

ماہرین نے بتایا کہ اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کی وجہ سے ان تنازعات کی بھاری قیمت شہریوں نے ادا کی جبکہ کرائے کے فوجیوں کی جانب سے رہائشی علاقوں میں بچھائی گئی باردوی سرنگوں نے شہریوں کو ہلاک اور معذور کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ قابل اعتماد معلومات کے مطابق روس کی سیکیورٹی کمپنی ویگنر نے کرائے کے فوجیوں کے طور پر کام کیا اور اس بات پر یقین کرنے کے لیے بہت سی چیزیں موجود ہیں کہ ویگنر کے اہلکار قتل کے جنگی جرائم میں ملوث ہیں جس میں طرابلس کے جنوبی حصے میں قید افراد پر ستمبر 2019 میں کی جانے والی فائرنگ بھی شامل ہے۔

تحقیقات میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ سیکڑوں بارودی سرنگیں، جن میں بیشتر روسی ساختہ تھیں، اپریل سے مئی 2020 کے دوران مکانات اور دیگر رہائشی عمارتوں کے ساتھ بچھائی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں