افغانستان میں کئی ماہ کی تاخیر کے بعد پاسپورٹ کا دوبارہ اجرا

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2021
وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ 25 ہزار درخواستیں پاسپورٹ جاری ہونے کے حتمی مرحلے تک پہنچ چکی ہیں — فوٹو: رائٹرز
وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ 25 ہزار درخواستیں پاسپورٹ جاری ہونے کے حتمی مرحلے تک پہنچ چکی ہیں — فوٹو: رائٹرز

افغانستان کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ مہینوں کی تاخیر کے بعد شہریوں کو دوبارہ پاسپورٹ کا اجرا کیا جائے گا۔

پاسپورٹ جاری نہ ہونے کے باعث اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد ملک چھوڑنے کے خواہش مندوں کو بڑی رکاوٹ کا سامنا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاسپورٹ کی فراہمی کا مرحلہ امریکی فوجی انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار میں واپس آنے سے قبل ہی سست روی کا شکار تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کی جاری کردہ دستاویزات فراہم کرنے والے درخواست گزاروں کو پاسپورٹ جاری کیے جائیں گے۔

پاسپورٹ آفس کے قائم مقام سربراہ عالم گُل حقانی کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر 5 سے 6 ہزار پاسپورٹ جاری کیے جائیں گے، جبکہ خاتون شہریوں کے لیے خواتین ملازمین کام کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں داخلے کیلئے پاکستانی پاسپورٹ لازمی قرار

انہوں نے دارالحکومت کابل کے رپورٹرز کو بتایا کہ 'کسی مرد ملازم کو حق نہیں ہوگا کہ وہ خاتون کے پاسپورٹ سے متعلق بائیومیٹرک یا کوئی اور کام کرے'۔

وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے بریفنگ میں بتایا کہ 25 ہزار درخواستیں پاسپورٹ جاری ہونے کے حتمی مرحلے تک پہنچ چکی ہیں اور اندازاً ایک لاکھ درخواستیں ابتدائی مراحل میں زیر التوا ہیں۔

کابل کے پاسپورٹ آفس کے باہر موجود ایک شہری ناجیہ امان کا کہنا تھا پاسپورٹ دوبارہ جاری ہونے سے ان کی بڑی مشکل حل ہوگئی ہے اور ان کے اہل خانہ کے ایک رکن علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی دستاویز حاصل کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'پاسپورٹ آفس دوبارہ کھلنے پر میں بہت خوش ہوں'۔

ناجیہ نے بتایا کہ 'ہم نے بہت مشکلات کا سامنا کیا اور ہم ان کے علاج کی غرض سے پاکستان جانے کے لیے پاسپورٹ حاصل نہیں کر پائے تھے'۔

افغان ویمنز فٹبال ٹیم

دوسری جانب افغان ویمنز فٹ بال ٹیم کی کپتان شبنم مبریز کا کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے کے بعد آسٹریلیا کی جانب سے پناہ دینے کے باوجود بھی ٹیم کی اراکین اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کے حالات کا شکار ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی

15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد آسٹریلیا نے 50 سے زائد خواتین فٹبالرز، ایتھلیٹس اور ان پر انحصار کرنے والوں کو افغانستان سے نکالا اور اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔

امریکا میں مقیم کپتان شبنم مبریز نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کرنے والی خواتین کھلاڑیوں کا آسٹریلیا میں اچھا خیال رکھا جارہا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔

شبنم مبریز نے غیر ملکی نشریاتی ادارے 'اسکائی اسپورٹس' کو بتایا کہ 'وہ اس وقت انتہائی غیر یقینی کی حالت میں ہیں'۔

ان کہنا تھا کہ 'یہ بہت تکلیف دہ تجربہ تھا اور اب وہ اس نئی عام زندگی کی عادت ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں'۔

شبنم نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ وہ الجھن کا شکار ہیں اور صدمے میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان اور دوستوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے'۔

1996 سے 2001 کے دوران گزشتہ دور اقتدار میں طالبان نے تعلیم اور ملازمت سمیت خواتین کے متعدد حقوق کو سلب کر لیا تھا۔

گزشتہ ماہ طالبان کے ایک سینئر عہدیدار نے آسٹریلوی نشریاتی ادارے 'ایس بی ایس نیوز' کو بتایا تھا کہ خواتین کو افغانستان کے مشہور کھیل کرکٹ یا ممکن ہے دیگر کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ یہ 'غیر ضروری' ہے اور ان کھیلوں میں ان کا وجود نمایاں ہوتا ہے۔

شبنم مبریز کا کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے نے خواتین فٹ بالرز کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں