پنجاب کی طرح سندھ میں بھی گندم کی قیمت ایک ہزار 950 روپے فی من مقرر

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2021
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملک میں یکساں ریٹ کے تعین سے گندم کے آٹے کی قیمتیں مستحکم ہوں گی—فائل فوٹو: رائٹرز
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملک میں یکساں ریٹ کے تعین سے گندم کے آٹے کی قیمتیں مستحکم ہوں گی—فائل فوٹو: رائٹرز

ایسے میں کہ جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں گندم سب سے مہنگی ہے، سندھ حکومت کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 16 اکتوبر سے فلور ملز کو گندم ایک ہزار 950 روپے فی 40 من کے حساب سے جاری کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی، انہوں نے کہا کہ ملک میں یکساں ریٹ کے تعین سے گندم کے آٹے کی قیمتیں مستحکم ہوں گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا تھا کہ صوبائی حکومت نے 12 لاکھ ٹن گندم کا اجرا روک دیا ہے، جس سے قیمت بڑھ رہی ہے اور دعویٰ کیا کہ قیمت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں سب سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں گندم کی امدادی قیمت 2 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ

انہوں نے صوبائی حکومت پر اناج کی خریداری نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔

تاہم صوبائی وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ نے سندھ کابینہ کو بتایا کہ محکمہ خوراک کے گوداموں میں 12 لاکھ ٹن سے زائد گندم کا ذخیرہ دستیاب ہے، جہاں سے ہر سال 15 اکتوبر کو فلور ملز کو اجناس جاری کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب حکومت 20 ستمبر سے ایک ہزار 950 روپے فی من کے حساب سے گندم جاری کررہی ہے۔

صوبائی کابینہ نے 16 اکتوبر سے گندم ایک ہزار 950 روپے فی من کے حساب سے جاری کرنے کی منظوری دی اور وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملک میں گندم کے یکساں نرخ آٹے کی قیمتوں کو مستحکم کریں گے۔

30،000 مقامی طور پر بے گھر افراد کے لیے زمین

مزید برآں وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کابینہ کو گجر، اورنگی اور محمود آباد نالوں پر انسداد تجاوزات مہم کے دوران بے گھر ہونے والے لوگوں کی آبادکاری کے بارے میں بریفنگ دی۔

مزید پڑھیں:کابینہ کی گزشتہ سال گندم’ذخیرہ' کرنے پر سندھ پر تنقید

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے برساتی پانی کے نالوں کی حالت کا نوٹس لے کر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو ہدایت کی تھی کہ وہ نالوں کی صفائی کا کام سنبھال لیں اور صوبائی حکومت کے تعاون سے تجاوزات ہٹائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ این ڈی ایم اے کے تجاوزات ہٹانے کی وجہ سے بے گھر ہوئے افراد کی بحالی کے لیے تمام ضروری مدد اور تعاون فراہم کیا جائے۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ متاثرین کے لیے دوبارہ آباد کاری میں مدد کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوگا جب ڈھانچے کو جزوی طور پر (30 فیصد تک) مسمار کیا گیا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: گندم کی قیمت میں اضافے کے بعد خوردہ فروشوں نے آٹے کی قیمت بڑھادی

انہوں نے کہا کہ منظور شدہ ری سیٹلمنٹ سپورٹ ماڈل کے دو اجزا ہیں، اس میں کرایے کی مدد کے طور پر 15 ہزار روپے ماہانہ فی گھر 2 سال کے لیے ششماہی بنیاد پر کراچی ایڈمنسٹریٹر کے دفتر کی جانب سے بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ مقامی طور پر بے گھر افراد کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فیز ون میں شروع کیے گئے ہاؤسنگ منصوبوں کی ترغیب دینے سے انکار کا پہلا حق دیا جائے گا، جس میں ایک لاکھ یونٹس شامل ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے ہر یونٹ کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے میں کراچی کے بے گھر افراد کے لیے 30 ہزار یونٹس مختص کرے گی جن کی زمین صوبائی حکومت مفت فراہم کرے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا اس مقصد کے لیے سندھ حکومت نے 3 پیٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی ہیں جن میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن سے وصول ہونے والے 10 ارب روپے سندھ حکومت کو دیئے جائیں تاکہ اس رقم سے متاثرین کے لیے گھر بنائے جاسکیں۔

علاوہ ازیں صوبائی کابینہ نے موٹر وہیکل رول نمبر 156 میں ایک ترمیم کی منظوری دی جس کے تحت موٹرسائیکل سواروں کو اپنی موٹر سائیکلوں پر سائیڈ مررز لگانا ہوں گے تاکہ دونوں طرف کی سائیڈ ٹریفک سے آگاہ رہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں