نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2021
ملزمان کے وکلا نے کہا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے چالان کے ہمراہ دیگر دستاویزات فراہم کی جائیں— فوٹو: ڈان نیوز
ملزمان کے وکلا نے کہا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے چالان کے ہمراہ دیگر دستاویزات فراہم کی جائیں— فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ مؤخر کردیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواستیں خارج کیے جانے کے بعد ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم ‏ظاہر جعفر، ان کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین اور تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو افسر (‏سی ای ‏او) سمیت 6 ملازمین کی موجودگی میں نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل شروع کیا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

ملزمان نے چالان کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے سے متعلق تین مختلف درخواستیں دائری کیں جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چالان کے ہمراہ دیگر دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں جبکہ آرٹیکل 10 اے فئیر ٹرائل کا حکم دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے چالان کے ہمراہ دیگر دستاویزات فراہم کی جائیں اور میرے مؤکل ظاہر جعفر کی 3 دن سے طبیعت ناساز ہے۔

سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آزادانہ طور پر کچھ کہنے کا موقع دیا جائے۔

ظاہر جعفر نے جج سے کہا کہ 90 دن سے زیر حراست ہوں عدالت کا اگلا پلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

مرکزی ملزم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے آگے کا بتا دیں کیا ہوگا، امریکی سفارتخانے نے وکیل فراہم کرنے کے لیے فہرست دی جو مجھے نہیں ملی۔

جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا پلان نہیں ہوتا بلکہ عدالتی کارروائی ہوتی ہے، آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں، جو بھی ہو گا وہ آپ کو آپ کا وکیل بتائے گا۔

بعدازاں عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک کے لیے مؤخر کردیا، ملزمان کے وکلا کی دو درخواستوں پر عدالت کل فیصلہ سنائے گی۔

ہائیکورٹ کے فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع

دوسری جانب ملزم ظاہر جعفر کے والدین نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

ایڈووکیٹ خواجہ حارث کی وساطت سے دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا ‏گیا کہ ایسے شواہد موجود نہیں کہ ‏والدین کو بیٹے کے ‏قتل کے ارادوں کا معلوم ہو۔

انہوں نے کہا کہ کسی شریک ملزم کے بیان پر درخواست ضمانت ‏خارج نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام آباد ‏ہائیکورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں، عدالت عالیہ نے ‏تعزیرات پاکستان کی دفعہ 107 کا غلط جائزہ لیا۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ اسلام آباد ‏ہائیکورٹ کا فیصلہ ‏کالعدم قرار دیکر ضمانت منظور کی جائے۔ ‏

یاد رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا تھا کہ مدعی مقدمہ و مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کی روشنی میں ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام محرکات کے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔

پولیس نے عدالت سے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

اسلام آباد کی عدالت نے 27 جولائی کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار والدین سمیت 4 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: 'نئی تفصیلات، کردار' سامنے آنے کے بعد ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں ایک بار پھر توسیع

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں