جوہری معاہدے پر مذاکرات کی بحالی کا انحصار ایران پر ہے، امریکا

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2021
ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نیڈ پرائس نے کہا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکا، ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا خواہاں ہے— فائل فوٹو:
ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نیڈ پرائس نے کہا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکا، ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا خواہاں ہے— فائل فوٹو:

امریکی انتظامیہ نے ایران کے جوہری معاہدے پر مذاکرات کی دوبارہ جلد از جلد بحالی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کا انحصار ایران پر ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکا، ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا خواہاں ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کے ساتھ جوہری نگرانی کا معاہدہ، مذاکرات کی اُمید بڑھ گئی

ان کا کہنا تھا کہ سفارتی راستہ کھلا ہوا ہے اور ایران نے کہا تھا کہ وہ بھی جلد از جلد مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ ان کی 'جلد' کی تعریف ہماری 'جلد' کی تعریف سے مماثلت رکھتی ہو گی اور ہم جلد ویانا میں مذاکرات شروع کرنے کے ٰخواہاں ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ہم 2015 کے معاہدے کی جلد بحالی کے خواہاں ہیں البتہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے چھ دور بے نتیجہ رہے تھے۔

نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین کی ایک ساتھ واپسی ہو اور بات چیت وہیں سے شروع ہو جہاں ہم نے ویانا میں مذاکرات کے چھ ادوار کے بعد پہنچے تھے۔

تاہم امریکی اصرار کے باوجود ایران کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے آغاز سے قبل تمام پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت

یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔

تاہم 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔

ویانا میں ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے دورہ تہران کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے جے سی پی او اے کے نام سے معاہدے کی بحالی کے لیے اُمید کی کرن جاگی تھی۔

مزید پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

تاہم مذاکرات جون میں ابراہیم رئیسی کے صدارتی انتخاب جتنے کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔

ایرانی تجزیہ کار سعید لیلاز نے کہا کہ 'افغانستان سے امریکی انخلا سمیت دیگر علاقائی پیش رفت پر بھی غور کرنا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جغرافیائی نقطہ نظر سے ایران اور امریکا کو سمجھوتے کی ضرورت ہے لیکن ہر ایک پہلے قدم کے لیے دوسرے کو آگے کرنا چاہتا ہے'۔

اس کی مثال ایرانی اخبار 'شارغ' کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والی دو تصاویر ہیں جس میں ایک میں جو بائیڈن اعلان کر رہے ہیں کہ 'اگر تہران ایسا کرتا ہے تو ہم معاہدے میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں' جبکہ دوسری تصویر میں ابراہیم رئیسی نے جواب دیا کہ 'ہمیں امریکا کے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ایران: قانون سازوں کا عالمی جوہری ایجنسی کے ساتھ معاہدے پر صدر کےخلاف کارروائی کا مطالبہ

اقوام متحدہ کا ادارہ جوہری معاہدے کی نگرانی کر رہا ہے اور معاہدے کے ذریعے ایران کو جوہری پروگرام پر سخت کنٹرول کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں