امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

اپ ڈیٹ 19 فروری 2021
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے ای 3 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں ویڈیو میٹنگ کے دوران یہ خیال پیش کیا—تصویر: رائٹرز
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے ای 3 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں ویڈیو میٹنگ کے دوران یہ خیال پیش کیا—تصویر: رائٹرز

امریکا نے کہا ہے کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 سال قبل ترک کردیا تھا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیش رفت امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کی عکاس ہے، جس میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے صدر جو بائیڈن کے اس مؤقف پر زور دیا کہ اگر تہران معاہدے کی مکمل پاسداری کرے تو واشنگٹن اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوجائے گا جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا تھا۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے برطانیہ، فرانس، جرمنی کے وزرائے خارجہ پر مشتمل گروپ ای 3 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں ویڈیو میٹنگ کے دوران یہ خیال پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندیاں ختم ہونے تک جوہری پروگرام میں تخفیف ممکن نہیں، ایران

چاروں اقوام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'اگر ایران جے سی پی او اے کے تحت اپنے وعدوں پر دوبارہ سختی سے عمل کرتا ہے تو امریکا بھی یہی کرے گا اور اس سمت میں ایران کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے کو تیار ہے'۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لیے جوہری معاہدہ کیا تھا جس میں یورپی ممالک بھی شامل تھے تاہم مئی 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔

جس کے تقریباً ایک سال بعد ایران نے معاہدے میں کیے گے وعدوں کی خلاف ورزی شروع کی تھی جس میں حالیہ مہینوں میں خاصہ اضافہ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں:جوہری معاہدہ توڑنے پر امریکا سے جواب طلب کیا جائے، ایران کا اقوام متحدہ سے مطالبہ

ایک امریکی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن یورپی یونین کی جانب سے ایران اور اس معاہدے کے لیے بات چیت کرنے والے 6 ممالک روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور امریکا کے مابین بات چیت کے دعوت نامے پر مثبت ردِ عمل دے گا۔

ایک یورپی یونین عہدیدار نے اس قسم کی بات چیت کے انعقاد کا خیال پیش کیا تھا جس کے جواب میں امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'ہم اس قسم کا اجلاس ہونے کی صورت میں اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا ایسا اجلاس ہوگا اور اگر ہوگا تو کب اور کہاں ہوگا۔

ایران کا ردِ عمل

چاروں ممالک کے مشترکہ بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ واشنگٹن کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔

ایک ٹوئٹر پیغام میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ایران پر ذمہ داری ڈالنے اور غلط بیان کے بجائے ای 3 اپنے وعدوں کی لازمی پاسداری کرے اور ایران کے خلاف معاشی دہشت گردی کی ڈونلڈ ٹرمپ کی روایت ختم کرنے کا مطالبہ کرے۔

خیال رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اس سے قبل جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکا اور دیگر فریقین سے بات چیت کرنے پر آمادگی کا اشارہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:'یورپی یونین اپنا رویہ ٹھیک کرلے، ایران جوہری معاہدے کی پابندی کیلئے تیار ہے'

اس ضمن میں ایک فرانسیسی سفارتکار کا کہنا تھا کہ امریکا کے مؤقف میں تبدیلی سے ایران کے لیے راستہ کھلنے کا اظہار ہوتا ہے لیکن یہ سفر مشکلات اور رکاوٹوں سے بھرپور ہے۔

قبل ازیں ایران نے سابق امریکی صدر کی جانب سے اپنے اوپر لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جوبائیڈن حکومت کو آئندہ ہفتے تک کی مہلت دی تھی بصورت دیگر اقوامِ متحدہ کی نیوکلیئر واچ ڈاگ کے مختصر نوٹس پر جوہری تنصیبات کے معائنے پر پابندی لگا کر معاہدے کی بڑی خلاف ورزی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

تاہم برطانیہ، فرانس، امریکا اور جرمنی نے ایران سے اس قسم کے اقدامات نہ اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں