پاکستان کے وزیرِ داخلہ جناب شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ ملک ایک بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے اور ہمیں ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ہمیشہ سے کسی نہ کسی بحران کا شکار ہی رہا ہے۔

ہمارے سیاسی، معاشی، اندرونی اور بیرونی معاملات میں آنے والی پیچیدگیاں ہماری اپنی وجہ سے ہی آتی ہیں اور ان کا اثر روزمرہ زندگی اور کھیل کے میدانوں پر بھی ہوتا ہے۔

میں ذاتی طور پر سیاسی انسان نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے سیاسی امور سے دلچسپی ہے لیکن میں ان تمام چیزوں پر ضرور نظر رکھتا ہوں جو کھیل سے متعلق ہوں۔ چونکہ اسپورٹس میرا شعبہ اور کرکٹ کی صحافت میرا پیشہ ہے تو اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ کرکٹ جس موجودہ بحران کا شکار ہے اور ہم ایک بار پھر جس سانحے سے گزر رہے ہیں اس پر ضرور روشنی ڈالی جائے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے نئے چیئرمین کے طور پر رمیز راجہ کی تقرری ہوتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا پاکستان سے یہ کہتے ہوئے چلے جانا کہ انہیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں مل رہی ہیں ایک بڑے سانحے سے کم نہیں تھا۔ مزید یہ کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا۔

یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کی وجہ سے ہوا اور یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ اس میں پڑوسی ملک بھارت کا بہت ہی گھناؤنا کردار سامنے آیا ہے۔ دوسری جانب رمیز راجہ پر بھی یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘ ظاہر ہے کہ ہم سب اس غیر متوقع سانحے سے بہت ہی ناامید ہوئے۔

ان لمحات میں اہم ذمہ داریوں پر فائز افراد کو ہر قدم بہت ہی سوچ سمجھ کر اور پیچیدگیوں کو مدِنظر رکھ کر اٹھانا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط بیانات سے گریز کریں اور حقیقت اور فسانے کو علیحدہ علیحدہ رکھیں۔

رمیز راجہ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے پیچ و خم سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ ظاہراً وہ اس کھیل سے والہانہ محبت رکھنے والوں کے دلوں میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ جب سے انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو لوگوں نے ان سے ملک میں کرکٹ کو فروغ دینے کی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔

تاہم رمیز راجہ جب سیاسی بصیرت کو بالائے طاق رکھ کر کچھ بیانات دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی برائے کھیل کے سامنے جو بیان دیا اس سے نہ صرف لوگوں کی دل آزاری ہوئی بلکہ خود رمیز راجہ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

رمیز راجہ نے کہا کہ اگر بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی آج پاکستان کرکٹ کی فنڈنگ بند کردیں تو پاکستان کی کرکٹ ختم ہوجائے گی۔ رمیز راجہ کا یہ کہنا تو ایک حقیقت ہے کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے لیے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ فنڈ فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اگر بھارت یا مودی پاکستان کی فنڈنگ روک دیں تو ہماری کرکٹ ختم ہوجائے گی۔ اس حوالے سے نہ ہی بھارتی وزیرِاعظم کے پاس کوئی اختیار ہے اور نہ ہی بھارتی کرکٹ بورڈ کے پاس۔

اگر ایک لمحے کے لیے ہم مان لیں کہ بھارت ایسا کرسکتا ہے تو پھر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی حالات اور بی جے پی حکومت کی پاکستان کے خلاف نفرت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ بھارت نے اب تک ایسا کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ دراصل بھارت کے پاس کسی کی فنڈنگ روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور تمام ممالک کو فنڈنگ آئی سی سی ہی کرتی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے 12 ممالک جن میں انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور خود بھارت بھی شامل ہے، انہیں بھی آئی سی سی ہی پیسے فراہم کرتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی سی سی کو فنڈنگ کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟

آئی سی سی کی فنڈنگ زیادہ تر ٹی وی حقوق اور اسپانسرشپ سے آتی ہے جو کئی ارب ڈالر میں ہوتی ہے۔ یعنی آپ یوں سمجھیے کہ سال 2007ء سے 2015ء میں آئی سی سی نے ٹی وی حقوق اور اسپانسرشپ کی مد میں تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالر حاصل کیے۔

ٹی وی چینلز اپنے اپنے ممالک میں شائقین کو کرکٹ ٹورنامنٹ دکھانے کے لیے یہ حقوق حاصل کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بھارت آبادی کے اعتبار سے بھی اور معاشی اعتبار سے بھی بڑا ملک ہے اسی وجہ سے آئی سی سی کو اشتہارات اور اسپانسر شپ کی مد میں سب سے زیادہ پیسے بھی بھارت سے ہی ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کی نسبت آئی سی سی بھارت کو زیادہ فنڈنگ فراہم کرتا ہے۔ یوں رمیز راجہ کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کو کچھ بڑے ممالک کی نسبت کم فنڈنگ ہوتی ہے۔

لہٰذا ہمیں یہ تسلیم تو کرنا ہوگا کہ پاکستان کرکٹ کو چلانے کے لیے مالی اعتبار سے مضبوط ہونا ناگزیر ہے تاہم یہ تاثر دینا کسی بھی طور پر درست نہیں کہ اگر بھارت پاکستان کو پیسے نہ دے تو یہاں کرکٹ ختم ہوجائے گی۔

رمیز راجہ کے بیان نے بھارتی میڈیا کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اس بات کو اچھالتے رہیں کہ پاکستان کی کرکٹ کا انحصار بھارت کی فنڈنگ پر ہے۔ بہرحال اب رمیز راجہ کی کوشش یہی ہے کہ وہ مختلف کاروباری افراد اور اداروں کے ساتھ مل کر پی سی بی کے مالی حالات کو مستحکم کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فنڈز کی کمی کا مسئلہ ہے تو پھر بینکوں، ایئرلائنز اور دوسرے اداروں کی ٹیموں کو کیوں ختم کیا گیا اور ان کے کھلاڑیوں کو کیوں بے روزگار کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔

اس وقت جو ایک امید افزا صورتحال بنتی نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ رمیز راجہ کے مطابق نیوزی لینڈ سے بات چیت جاری ہے، وہ لوگ بھی اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور پاکستان آنے کے لیے ایک بار پھر سوچ رہے ہیں۔

دوسری جانب انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے چیئرمین این واٹمور کے مستعفی ہونے اور بورڈ پر سخت تنقید نے ای سی بی کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی اور اس کے نئے چیئرمین اس کام میں کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔

بہرحال قارئین اس حقیقت کو ذہن میں بٹھالیں کہ بھارت، پاکستان کو کرکٹ کی بقا کا پیسہ نہیں دیتا بلکہ وہ آئی سی سی کو ٹی وی حقوق خریدنے اور اشتہارات کا پیسہ دیتا ہے۔ یہ رقم کیونکہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس وجہ سے آئی سی سی بھی بھارت کو زیادہ فنڈنگ فراہم کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

انجنیئر حا مد شفیق Oct 14, 2021 11:36pm
رمیزراجہ لگتا ہے پاگلوں جیسی باتیں کرتے ہیں پاکستانیوں کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ کرکٹ جیسے کھیل کو افورڈ کرسکتے ہیں
عمران Oct 15, 2021 10:25am
بلکل صحیح کہا قمر احمد صاحب نے ، ہمارے کھیل کے میدانوں میں جو حالات ہیں وہ دوسروں کی بجائے ہمارے اپنوں کی کرم فرمائیوں کا نتیجہ ہیں۔ کرکٹ تو پھر بھی جیسے تیسے چل رہی ہے، لیکن ہاکی ، فٹ بال ، اسکواش ، باکسنگ اور دیگر کھیلوں کے میدان ہمارے اپنے لوگوں نے ویران کئے ہیں۔