لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

ملک میں ہائبرڈ (مرکب) حکمرانی نے بھلے ہی سیاسی استحکام کی فضا ظاہر کی ہو لیکن ملکی نظام میں موجود تناؤ کی جڑ اب بھی برقرار ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین اداروں کے درمیان طاقت کا عدم توازن سیاسی نظام کا شیرازہ بکھیر سکتا ہے۔

پاکستان میں اقتدار میں آنے والی زیادہ تر حکومتوں کو بھی ملاوٹ زدہ قرار دیا جاسکتا ہے جن میں چند پالیسیوں کی تشکیل کا اختیار صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی رہا۔ ملک کے سیاسی منظرنامے پر سیکیورٹی ایجنسیوں کے اس قدر گہرے سائے ہیں کہ سویلین اختیار برائے نام ہی رہ جاتا ہے۔

مگر موجودہ سیاسی انتظامی ڈھانچے کو واقعتاً ہائبرڈ حکمرانی کا پہلا تجربہ قرار دیا جاسکتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے فراہم کردہ تختے پر ٹکا ہے۔ چند چھوٹی خرابیوں کے باوجود یہ انتظام گزشتہ 3 برسوں سے لرزتی مخلوط حکومت کو سہارا دیتے ہوئے بڑی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے۔

تاہم حالیہ ہفتوں کے دوران اس انتظام میں چند دراڑیں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی پر وزیرِاعظم اور سیکیورٹی اداروں کی قیادت کے مابین بتائی جانے والی تکرار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔

پڑھیے: المیہ یہ کہ نہ حکومت عوام کے بارے میں سوچ رہی ہے اور نہ اپوزیشن!

اس بات پر تو کوئی شک نہیں کہ وزیرِاعظم نے اپنا اختیار جتانے کے لیے غلط معاملے کا انتخاب کرلیا ہے۔ سبکدوش ہونے والے سربراہ آئی ایس آئی کو عہدے پر برقرار رکھنے سے متعلق ان کے مؤقف نے سیاسی عزائم سے متعلق سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

فوجی قیادت نے ردِعمل دیتے ہوئے بظاہر وزیرِاعظم کی منظوری کے بغیر اور اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے چیف کی تقرری کا نوٹییفکیشن جاری کردیا جس نے ٹکراؤ کی راہ ہموار کردی۔

ٹکراؤ کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو مگر اس نے سول اور فوجی قیادت کے درمیان گہری ہوتی خلیج منکشف کردی ہے۔ چند دیگر ایسے معاملات بھی ہیں جن کی وجہ سے پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں قیادتیں اہم خارجہ اور سلامتی امور پر ایک پیج پر نظر نہیں آتیں۔ پاکستان تحریک پاکستان (پی ٹی آئی) سے کس طرح نمٹنا ہے؟ یہ معاملہ بھی تنازع کا سبب بن گیا ہے کیونکہ وزیرِاعظم بظاہر اس کالعدم شدت پسند گروہ سے مفاہمت کے لیے بے تاب ہیں جس کے ہاتھ ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہیں۔

یہ بات باعثِ تجسس ہے کہ ہائبرڈ ڈھانچے میں اس وقت کشیدگی دیکھنے کو ملی ہے جب ملک کے اندر انتخابی ماحول بننے لگا ہے۔

پی ٹی آئی کے چند داخلی ذرائع کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے سے قبل حکمراں جماعت کو اپنے اوپر لگی 'سلیکٹڈ' کی مہر کو مٹانا ضروری ہے۔ مگر پارٹی قیادت کے لیے اس سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے مکمل طور پر ناطہ توڑنا آسان نہیں ہوگا جس کی حمایت اقتدار حاصل کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

محدود اکثریت کی حامل ایک غیر مستحکم مخلوط حکومت اسٹیبلشمنٹ سے تکرار کی متحمل نہیں ہوسکتی اور یہ امر خصوصاً ایسی حکومت کے لیے اور بھی کٹھن ثابت ہوگا جس نے جمہوریت کے تقاضوں کو زیادہ اہمیت نہ دی ہو۔ گزشتہ 3 برسوں کے دوران وزیرِاعظم کی محاذ آرائی کی پالیسی نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے۔

پڑھیے: کیا عمران خان بھٹو بن سکتے ہیں؟

ان کی جانب سے منتخب اداروں کی توہین سب کے سامنے ہے۔ اہم آئینی معاملات پر بھی اپوزیشن کو اعتماد میں لینے اور غیر معمولی خارجہ و سلامتی پالیسیوں پر قومی اتفاق رائے قائم کرنے سے انکار نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو کھلا میدان دے دیا ہے اور یوں اس کی اقتدار کے مختارِ کُل کی حیثیت کو تقویت ملی ہے۔

ایک منقسم حزبِ اختلاف بھلے ہی حکومت کے لیے بڑا چیلنج نہ ہو لیکن غیر جمہوری رویہ حکومت کی سیاسی حیثیت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران حکومت نے پارلیمنٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے کئی قوانین کا نفاذ کیا ہے۔

سب سے متنازع اقدام نیب ضابطوں میں ترمیم کے ذریعے موجودہ چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع دینا ہے جس کی ساکھ اور غیر جانبداری پر سوال اٹھایا جاتا رہا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کے یکطرفہ احتساب نے کرپشن کی روک تھام کے ادارے کو متنازع بنادیا ہے اور داغدار احتسابی عمل کی سربراہی کرنے والے شخص کو توسیع دینے سے مخالفین کے الزامات کو تقویت ملی ہے۔

اس الزام میں کسی حد تک صداقت موجود ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سویلین ریاستی اداروں کو منظم انداز میں تباہ کر رہی ہے۔ حکومت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف طے شدہ مہم کے تحت ایک آئینی ادارے (الیکشن کمیشن آف پاکستان) کو متنازع بنا رہی ہے۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی ضابطوں میں اصلاحات لانے کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے پی ٹی آئی حکومت انتخابی عمل میں یکطرفہ تبدیلیاں مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیرِاعظم اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔

ملک میں اس سسٹم کا تجربہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ حزبِ اختلاف نے الیکٹرانک ووٹنگ کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ ووٹنگ کے عمل میں تبدیلی سے متعلق کسی بھی قسم کا یکطرفہ فیصلہ آئندہ انتخابات کو متنازع بنادے گا اور پہلے سے بگڑے ہوئے جمہوری عمل کو سنگین نقصان پہنچائے گا۔ گورننس کے فقدان کے باعث حکومت زیادہ سے زیادہ آمرانہ عوامل کا سہارا لے رہی ہے۔

پڑھیے: ’میں بھی عمران خان ہوں’، لیکن کونسا والا؟

اقتصادی مندی اور آسمان کو چُھوتی مہنگائی جیسے اہم مسائل پر دھیان دینے کے بجائے حکومت تفرقہ انگیز روش برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف خطے میں تیزی سے بدلتے زمینی و سیاسی منظرنامے کے پیشِ نظر ملک کو سنگین خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہے۔ واضح پالیسی کی سمت اختیار کرنے کے بجائے پاپولسٹ (مقبول) بیانیہ اختیار کرلیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے عناصر سے مذاکرات سے متعلق وزیرِاعظم کا بیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات مفاہمتی عمل کا حصہ ہیں اور جو افراد اسلحہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں انہیں معاف کردیا جائے گا۔ عام معافی کی اس پیش کش سے حکومت کی انسدادِ دہشتگرد پالیسی پر سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ مفاہمتی عمل سے سیکیورٹی فورسز کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حاصل کی جانے والی تمام کامیابیاں رائیگاں جائیں گی۔

اب جبکہ ملک کو اس طرح کے مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے ایسے میں وزیرِاعظم تواتر کے ساتھ اخلاقیات اور تاریخِ اسلام پر درس دینے لگے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں معاشرے میں 'بڑھتی ہوئی بے حیائی' جیسے معاملات کی زیادہ فکر رہنے لگی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں نئی اسلامی اتھارٹی قائم کی ہے جو ملک کے تعلیمی نظام اور میڈیا کی مانیٹرنگ کرے گی۔ اس طرح کے فیصلے ملک کو آگے نہیں لے جاسکے گے۔

اگر سویلین اور فوجی قیادت کے مابین تناؤ جلد ختم ہوجاتا ہے تو بھی شاید ہائبرڈ ڈھانچے میں روزِ اوّل سے شامل مسائل حل نہ ہوسکیں گے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کمزور ہوتے جمہوری عمل اور بد سے بدتر ہوتی گورننس سے عدم توازن مزید بڑھے گا۔


یہ مضمون 13 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں